Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایک اور مولانا مودودی کی ضرورت

قرآن کریم کو ام الکتاب اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں ازل سے ابد تک، پیدا و پنہاں، تمام علوم و فنون کی معلومات اور بشارتیں دی گئی ہیں۔ زمانہ ء حال کو تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں، زمانہ ء ماضی پر نظر ڈالیں تو کوئی ایسا موضوع نہیں جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود نہ ہو۔ مغرب کے فلاسفہ اور سائنس دان چونکہ قرآنِ حکیم سے اکتسابِ فیض نہیں کر پاتے اس لئے ان کو معلوم نہیں کہ جو ایجادات وہ کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں ان سب کی نوید ام الکتاب میں دی جا چکی ہے اور مشرق کے واعظ و حفاظ چونکہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہیں اس لئے ان کو بھی معلوم نہیں کہ خداوندِ کریم و جلیل نے ان کے سینوں کے اندر علم و ہنر کا کیسا ماہِ تمام رکھ دیا ہے!

1980ء کے عشرے میں پاک آرمی میں ’’آرمی بک کلب‘‘ کے نام سے ایک نئی طرح ایجاد کی گئی۔ ہر آفیسر سے 200 روپے سالانہ کے حساب سے چندہ جمع کیا جاتا تھا جس کے عوض سال بھر میں چار کتابیں ایشو کی جاتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر کتابیں ملٹری ہسٹری اور دیگر عسکری موضوعات پر ہوتی تھیں۔ کچھ برسوں کے بعد کسی نے اعتراض کیا کہ یہ ساری کتابیں انگریزی میں کیوں ہوتی ہیں۔ اردو میں بھی کوئی ایک آدھ کتاب دی جانی چاہیے۔ لیکن چونکہ اردو زبان میں ملٹری کے بارے میں کوئی ایسی ثقہ تصنیف موجود نہیں تھی اس لئے آرمی بک کلب کی انتظامیہ نے سوچ سوچ کر اس کا یہ حل نکالا کہ اگر عسکری اردو نہیں تو ’’اسلامی اردو‘‘ ہی سے آغاز کیا جائے۔
چنانچہ 1990ء کے عشرے میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کی ایک ایک جلد بھی ہر سال فراہم کی جانے لگی۔ یعنی تین کتابیں انگریزی میں ملٹری ہسٹری پر اور ایک (تفہیم القرآن) اردو میں۔۔۔ یہ سلسلہ چھ سال تک چلتا رہا۔ شائد 1994ء وہ آخری سال تھا جس میں تفہیم القرآن کی چھ کی چھ جلدیں پوری ہو گئیں۔ دریں اثناء آرمی کے ساتھ نیوی اور ائر فورس نے بھی پہلے آرمی بک کلب میں شمولیت اختیار کی تو اس سکیم کا نام ’’سروسز بک کلب‘‘ رکھا گیا لیکن بعد میں بحریہ اور فضائیہ نے اپنے اپنے بک کلب الگ بنا لئے۔

اس بک کلب نے آرمی آفیسرز کو دو بڑے فائدے بہم پہنچائے۔ ایک تو یہ کہ افسروں (سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک) کی غالب تعداد کلاسیکل عسکری تاریخ کو ’’ازراہِ مجبوری‘‘ پڑھنے لگی اور دوسرے تفہیم القرآن کو افسروں کی کلاس میں بار مل گیا۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بک کلب سکیم کا سب سے بڑا فائدہ دینِ اسلام کی یہی تفہیم تھی جو مولانا مودودی کی چھ جلدوں پر مشتمل اس کتاب کے توسط سے مسلح افواج کے افسروں کو اپنی قومی زبان میں قرآن حکیم کے متن اور اس کے ترجمے اور تفسیر سے روشناس اور سرشار کر گئی۔ فوج کی پروفیشنل غیر مرئی اخلاقیات میں مولانا مودودی کی اس تفسیر نے ایک زبردست کیٹالسٹ (Catalyst) کا کام کیا!

مجھ جیسا بندۂ گہنہ گار بھی ہر سال ماہِ رمضان میں پورے 30 پاروں کی تفسیر اور ترجمہ پڑھنے لگا۔ بار بار اس ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوا کہ ذہن میں اسلام کی بنیادی تعلیمات غیر محسوس طریقے سے راہ پانے لگیں۔ حضرت مودودی کا طرزِ تحریر بھی دل میں کھب جانے والا تھا اور فوجی افسروں کو بطورِ خاص اس لئے بھی اپیل کرتا تھا کہ اس میں تعقّل (Reasoning) اور تجزیئے (Analysis) کو کسوٹی بنا کر قرآن کریم کے موضوعات کی تشریح کی گئی تھی۔ ہر سورہ کا زمانہء نزول، اس کی شانِ نزول، مباحث و موضوعات اور پھر رکوع وار ترجمہ اور تفسیر اس قدر مدلل تھی کہ بار بار تلاوت کرنے اور پڑھنے کے بعد بھی جی کو سیری نہیں ہوتی تھی!

پھر ایک دو برس بعد ماہ رمضان ہی کے دوران وہ وقت بھی آیا جب میں نے دوسرے مفسرین کی متداول اردو اور انگریزی تفاسیر کی طرف بھی توجہ دی اور ہر مکتبہ ء فکر و مسلک کی تفسیروں اور تراجم کی ورق گردانی کرنے لگا جس سے نہ صرف یہ کہ دینِ اسلام کی حقانیت دل میں راسخ ہوتی چلی گئی بلکہ میرا مطمعِ نظر بھی وسیع اور لچکدار ہوتا رہا۔ جو تفسیر اور جو ترجمہ دل کو زیادہ اچھا لگا وہی یاد رہ گیا۔ اور پھر اگلا مرحلہ وہ آیا کہ میں نے تفہیم القرآن کی ہر جلد میں جگہ جگہ اپنے محدود علم کے مطابق حواشی قلمبند کرنے شروع کر دیئے۔ آج بھی مولانائے مرحوم و مغفور کی تفہیم پر ان حواشی کو کھول کر دیکھتا ہوں تو دل میں شکرِ ایزدی بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھ نا چیز اور کم فہم انسان کے فہم میں دین کو سمجھنے کا یہ شعور عطا کیا اور تفہیم القرآن کو اس کا سبب بنایا۔

مولانا مودودی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ ہر سورہ کے نزول کا جو تاریخی پسِ منظر بیان کرتے ہیں اور جو مضامین زیر بحث لاتے ہیں ان کی سپورٹ میں مشرق و مغرب کے حکماء اور فلاسفہ کے حوالے کوٹ (Quote) کرتے چلے جاتے ہیں۔ پڑھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ مفسر اور مترجم کا مبلغ فہم و فراست کس کینڈے کا ہے۔ ان کے دلائل قاری کے دل میں براہینِ قاطع کی طرح اتر جاتے ہیں۔ اور ایک اور لطف یہ بھی ہے کہ قاری کے سینے میں اخذِ معلومات کی مزید جوت بھی جگاتے جاتے ہیں۔ مجھے بارہا ایسے معلوم ہوا کہ ان کی تفسیر نہ صرف ماضی و حال کے حقائق کی شارح ہے بلکہ مستقبل کی بھی ترجمان ہے!

  لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments