Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا فوجی عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہیں ؟

یہ پانچ اگست 2015 کا دن تھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے سترہ رکنی بینچ
نے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو کثرتِ رائے سے برقرار رکھا۔ سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کا واقعہ تھا ہی اتنا ہولناک کہ حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنے پڑے اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمان کو بتایا کہ 'یہ غیر معمولی حالت اور محدود وقت کے لیے ہے، وقت جسے قانون میں واضح کیا گیا ہے۔ ایوان میں کھڑے ہوکر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ملٹری کورٹس پاکستان کے کسی عام شہری کے لیے نہیں۔‘
ملٹری کورٹس کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ یہ کینگرو کورٹس نہیں وہاں قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ ایوان میں وزیرِ داخلہ نے کہا 'تمام سیاسی جماعتیں اکھٹی ہوکر یہ غیر معمولی اقدام کر رہی ہیں۔ اور فوجی عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کھلی چھٹی اور گنجائش ہوگی۔‘

لیکن ہوا کیا ؟ کیا فوجی عدالتوں میں شواہد پیش کیے گئے؟ گواہوں کے بیانات لیے گئے اور ملزمان کو مقدمے کی سماعت کی نقول فراہم کی گئیں؟ لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم فوجی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کر چکے ہیں۔ اُنھوں نے سوال کیا کہ اگر کسی ملزم کو فوجی سربراہ نے 'جیٹ بلیک' قرار دے کر فوجی عدالت میں بھیجا ہے تو کوئی بھی اُسے کم سزا دے سکے گا ؟ اُنھوں نے الزام لگایا کہ فوجی عدالتوں میں جہاں دو سالوں کے دوران 100 سے زیادہ افراد کو سزائے موت سنائی گئی وہاں کسی کو بھی اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی مقدمے کی سماعت کی نقول فراہم کی گئیں۔
لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بتایا 'جب کسی کو فوجی عدالت سزا سناتی ہے تو پھر آرمی چیف اُس کی توثیق کرتا ہے پھر اُس مجرم کو سزا کے خلاف آرمی اپیل کورٹ میں جانے اجازت ہوتی ہے ہم نے اِسے بھی سپریم کورٹ میں چیلینج کیا ہے کہ اگر آرمی کسی کی سزا کو کنفرم کر دے تو کیا کوئی بریگیڈیئر سطح کا آفسر اُسے ختم کر سکتا ہے؟۔‘ اُنھوں نے بتایا کہ ندیم احمد شاہ ایڈووکیٹ کا کیس فوجی عدالتوں کا اہم ترین کیس ہے جس کے بعد وکیل صفائی کو کیس کی پیروی کی اجازت نہیں دی گئی۔ ندیم احمد شاہ ایڈووکیٹ کے معاملے میں فوجی عدالتوں نے اُن کے خلاف تمام الزامات واپس لے لیے تھے۔ اُنھوں نے بتایا 'مجھ پر دو الزامات تھے ایک تو حزب التحریر سے تعلق کا جسے فوراً واپس لے لیا گیا تھا اور دوسرا کسی فوجی اڈے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا، جس کی میرے وکیل نے پیروی اور مجھے بری کیا گیا لیکن اُس کے بعد سے میری اطلاع کے مطابق کسی کو فوجی عدالتوں میں وکیل کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم دنیا بھر کے 60 نامور ججوں پر مشتمل تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے مطابق دو سالوں کے دوران 150 سے زیادہ افراد کو سزائے موت سنائی گئی جس میں سے 12 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی ہوا۔ آئی سی جے نے پاکستان کی فوجی عدالتوں کو خفیہ، غیرشفاف اور منصفانہ سماعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی قرار دیا ہے۔ آئی سی جے کی نمائندہ برائے ایشیا ریما عمر نے بتایا 'سول کورٹس کو فوجی عدالتوں کے فیصلے پر اپیل سننے کا حق نہیں ہوتا صرف محدود نظرِ ثانی کا حق ہوتا ہے کہ آیا مقدمہ بد نیتی پر مبنی تھا یا مقدمہ عدالت کے دائرہ اختیار میں تھا یا نہیں۔ ریما عمرنے بتایا 'فوجی عدالتوں میں مقدمے خفیہ طور پر سنے جاتے ہیں اور سنگین ترین بات یہ ہے کہ اِن عدالتوں میں 94 فیصد افراد نے اقبالِ جرم کیا ہے۔‘

اِن اقدامات کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا بھی رہا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرا یوسف کے مطابق فوجی عدالتوں کی پہلے بھی ضرورت نہیں تھی اور اب بھی پاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط بنانے اور عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا 'ہم نے دیکھا ہے کہ جن افراد کو پھانسی دی گئی ہے اُن میں سے بہت کم دہشت گرد یا عسکریت پسند ہیں، زیادہ تعداد عام قاتلوں کی ہے'۔ کیا حکومت اب بھی یہ ارادہ رکھتی ہے کہ دو سال مکمل ہوجانے کے بعد بھی ملٹری کورٹس کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے گا ؟ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما لیفیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے ملٹری کورٹس کی مدت میں اضافے پراصولی طور پر انکار کیا ہے۔ 

اُنھوں نے کہا 'میرے خیال میں کام ابھی مکمل تو نہیں ہوا کیونکہ ابھی 70-60 فیصد کامیابی ہوئی ہے اور عدالتی نظام کی اصلاحات ابھی مکمل نہیں ہوئیں تو ضرورت تو ابھی بھی ہے لیکن فوجی عدالتوں کی مدت میں اضافہ اُسی صورت میں ہوگا جب تمام سیاسی جماعتوں کی مرضی شامل ہو۔‘ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے اِس بات کا دفاع کیا کہ فوجی عدالتوں میں لوگوں کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ ججوں کی عالمی تنظیم سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور وکلا نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوجی عدالتوں کے اختیارات میں اضافہ نہ کیا جائے۔ اکیسویں ترمیم کے نتیجے میں آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی گئی تھی جس پر صدرِ پاکستان نے سات جنوری 2015 کو دستخط کیے تھے۔ اِن عدالتوں کی دو سال کی مدت چھ جنوری 2017 کو پوری ہو رہی ہے۔

عبداللہ فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments