Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

طیبہ کیس : ’انگوٹھا لگاؤ اور بچی لے جاؤ‘

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار : کیا نام ہے آپ کا ؟
طیبہ کا والد: جی محمد اعظم جی
۔ کہاں کے رہنے والے ہو؟
۔ جی، تحصیل جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد
۔ کتنے بچے ہیں تمارے؟
۔ جی تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے اور طیبہ سب سے بڑی بچی ہے جس کی عمر دس سال ہے۔
۔ اپنی بڑی بیٹی یعنی طیبہ کو ملازمت پر کب بھجوایا؟
۔ جی اگست سنہ 2016 میں۔
۔ بیٹی کو کہاں بھجوایا تھا ملازمت کے لیے؟
۔ جی محلے کی ایک عورت نے جس کا نام نادرہ ہے بتایا تھا کہ فیصل آباد میں ایک گھر میں ایک چھوٹے بچے کو کھلانا ہے اوراُنھیں ایک بچی کی ضرورت ہے، اس لیے میں نے اپنی بچی فیصل آباد بھجوا دی۔
۔ کتنی تنخواہ ملتی تھی؟
۔ جی تین ہزار روپے ماہانہ اور 18 ہزار روپے ایڈوانس میں لیے تھے۔
۔ اس عرصے کے دوران کیا آپ کی طیبہ سے ملاقات ہوئی؟
۔ جی ملاقات تو نہیں ہوئی محض دو مرتبہ طیبہ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی۔
۔ طیبہ پر تشدد کا علم کب ہو؟
۔ جی ٹی وی پر دیکھا تھا اور اس کے بعد میں نے نادرہ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد معلوم ہوا کہ طیبہ فیصل آباد میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہے۔

۔ تو پھر کیا کیا؟
۔ جی گاڑی لیکر ہم فیصل آباد سے اسلام آباد آ گئے جہاں پر ہمیں اسلام آباد کے نواحی علاقے برما ٹاون میں ایک گھر میں ٹھرایا گیا۔
۔ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ برما ٹاؤن ہے اور اسلام آباد آنے کے لیے گاڑی کس نے فراہم کی تھی؟
۔ جی میں تو پہلی مرتبہ اسلام آباد آیا ہوں اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ برما ٹاؤن ہے، اس کے علاوہ گاڑی ہمیں اس مقدمے میں اُن کے وکیل راجہ ظہور نے فراہم کی تھی۔
۔ کیا واقعی اس وکیل نے گاڑی فراہم کی تھی؟
۔ جی گاڑی علاقے کے با اثر شخص رائے عثمان خان نے دی تھی۔
۔ گھر کس نے دلوایا تھا؟
۔ جی گھر وکیل نے دلوایا تھا۔
۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
۔ جی وکیل صاحب ایک کاغذ (صلح نامہ) لیکر آئے اور کہا کہ اس پر انگوٹھا لگا دو بچی مل جائے گی۔
۔ اس کاغذ پر کیا لکھا تھا اور پھر تم نے کیا کیا؟
۔ جی میں ان پڑھ ہوں مجھے نہیں پتا کہ اس پر کیا لکھا ہوا تھا، بس میں نے اپنی بیٹی حاصل کرنے کے لیے اس کاغذ پر انگوٹھا لگا دیا۔
۔ پھر کیا ہوا؟
۔ جی اس کے بعد ہم اسلام آباد کی عدالت میں گئے، جہاں پر وکیل صاحب نے کاغذ جج کو دیے اور کچھ دیر کے بعد طیبہ کو اُن کے حوالے کردیا گیا۔
۔ اس کے بعد آپ اپنے گاؤں چلے گئے تھے؟
۔ جی نہیں ہمیں برما ٹاؤن میں ایک بڑے گھر میں رکھا گیا، جہاں پر کچھ دیر کے بعد ایک یونیفارم پہنے ہوئے ایک شخص آیا جس نے میرے موبائیل سے سم نکال لی اور سم کو اپنے ساتھ لیکر چلا گیا۔
یہ احوال کسی عام مقدمے کا نہیں بلکہ ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کے تشدد کا شکار ہونے والی دس سالہ کمسن طیبہ کے مقدمے کا ہے اور یہ سوال و جواب پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور کمسن طیبہ کے والد کے درمیان ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے ہی اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا تھا۔

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں انسانی حقوق کی تنظمیوں کے نمائندوں ایک خاصی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں مختلف ملکوں کے سفارت کار بھی موجود تھے۔ طیبہ کی کونسلنگ کرنے اور اسے شیلٹر فراہم کرنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی وزارت کے اہلکار بھی بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کر رہے تھے تاہم عدالت نے کمسن لڑکی کو سویٹ ہوم بھجوا دیا۔ اس کے بعد جب سپریم کورٹ نے طیبہ کی والدہ نصرت بی بی، جو آٹھ ماہ کی حاملہ ہے کی دیکھ بھال کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سے کہا تو کمرہ عدالت میں موجود ان تنظیموں کے ایک بھی نمائندے نے اپنی نشست سے اُٹھنے کی زحمت گنوارہ نہیں کی۔

اس صورت حال میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکم دیا کہ اگر کوئی طیبہ کی والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا چاہتا ہے تو وہ سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق قائم کیے گئے سیل میں درخواست دے۔ اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران طیبہ کو صاف ستھرا لباس پہنایا گیا تھا اور اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اے ایس پی ارسلہ کو دی گئی تھی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ ملزمہ ماہین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں، تاہم ان کے دو بھائیوں نے ان کے اردگرد حصار بنایا ہوا تھا۔ سماعت کے بعد جب ملزمہ سپریم کورٹ سے باہر نکلیں تو وہاں پر موجود میڈیا کے نمائندوں نے ملزمہ کی تصاویر بنانے کی کوشش کی تو ملزمہ کے بھائیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور اُنھوں نے ملزمہ کے بھائیوں کو متعقلہ تھانہ سیکرٹریٹ منتقل 
کردیا۔

شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments