Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

’صدام صدر رہتے تو آج مشرق وسطیٰ کے حالات بہتر ہوتے‘

جب دسمبر 2003 میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) سابق
عراقی صدر صدام حسین کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئی تو ان کو ایک ایسے شخص کی ضرورت پڑی جو ان کے لیے صدام حسین کی شناخت کی تصدیق اور معلومات کے لیے تفتیش کر سکے۔ یہ شخص جان نکسن تھے جنھوں نے1998 میں سی آئی اے میں شمولیت اختیار کی اور اس دن سے صدام حسین کے بارے میں تحقیق ان کی زندگی کا محور بن گئی۔ سی آئی اے میں جان نکسن کا کام دنیا کے مختلف رہنماؤں کے بارے میں جاننا اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر رکھ کر یہ سمجھنا تھا کہ اُن لوگوں کے کام کرنے اور فیصلے لینے کا طریقہ کار کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جان نکسن نے بتایا کہ 'جب بھی کوئی بحران سامنے آتا، پالیسی ماہرین ہمارے پاس سوالات لے کر آتے کہ یہ لوگ کس طرح سے کام کرتے ہیں، ان کے سوچنے کا طریقہ کیا ہے، وہ کیا چاہتے ہیں، اور وہ جو اقدامات اٹھاتے ہیں اُن کی وجوہات کیا ہیں۔' جب صدام حسین کو امریکی فوج نے تکریت سے حراست میں لیا تو جان نکسن اس وقت عراق میں کام کر رہے تھے اور جب صدام حسین کی شناخت کی تصدیق کی ضرورت ہوئی، تو جان نکسن کو چنا گیا۔ اِن دنوں یہ افواہ گرم تھی کہ صدام حسین کی جسامت اور شکل و صورت سے ملتے جلتے کئی لوگ ہیں لیکن جان نکسن کہتے ہیں کہ جس لمحے انھوں نے صدام حسین پر نظر ڈالی ان کو یقین تھا کے وہی شخص سابق عراقی صدر ہے۔

'جیسے ہی میں نے اس شخص سے بات شروع کی، اِن کے چہرے پر وہی کیفیت تھی جو کہ میں نے ایک کتاب میں ان کی شکل پر دیکھی تھی اور وہ کتاب سالوں سے میری میز پر تھی۔ میں بتا نہیں سکتا کہ یہ کتنی غیر حقیقی بات تھی۔' جان نکسن بحثیت تفتیشی افسر پہلے شخص تھے جنہوں نے صدام حسین سے کئی دنوں پر محیط گفتگو کی اور تفصیلی سوالات کیے۔ 'مجھے خود کو چٹکی کاٹ کر یقین دلانا پڑتا تھا کہ میں دنیا کے سب سے مطلوبہ شحض سے سوالات کر رہا ہوں۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات لگ رہی تھی۔'

جان نکسن نے 2011 میں سی آئی اے کو الوداع کر دیا تھا اور اس کے بعد ایک کتاب 'ڈی بریفنگ دی پریزیڈنٹ' تحریر کی جو ان کے صدام حسین سے کیے گئے سوالات اور تجربات پر مبنی تھی۔ جان نکسن کے مطابق صدام حسین کی ذات تضادات سے بھرپور تھی۔ جان نکسن کے مطابق اُنہوں نے صدام حسین کی زندگی کے انسانی پہلو قریب سے دیکھے جن کا امریکی میڈیا میں کبھی بھی ذکر نہیں ہوا۔ 'زندگی میں بہت کم لوگ میں نے دیکھے ہیں جن کی اتنی کرشماتی شخصیت تھی۔ جب ان کا دل کرتا تو وہ بہت مسحور کن، شوخ، اور خوش اخلاق ہو جاتے۔'
لیکن جان نکسن کے مطابق کبھی کبھی صدام حسین کی طبیعت کے تاریک پہلو سامنے آ جاتے جن میں وہ بدتمیز، مغرور اور مطلبی شخص بن جاتے۔ 'دو تین دفعہ ایسا ہوا جب میرے سوالات سے ان کو شدید غصہ آ گیا تھا۔'

جان نکسن کہتے ہیں کہ طویل عرصے سے چھپے رہنے کی وجہ سے صدام حسین کو کسی سے بات کرنا میسر نہ تھا اور 'شاید اسی وجہ سے انہوں نے مجھ سے کافی کھل کر بات کی اور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ انہیں مجھ سے گفتگو کر کے مزا آیا۔' جان نکسن صدام حسین کے بارے میں مزید بتاتے ہیں کہ 'وہ انتہائی شکی مزاج انسان تھے اور میرے ہر سوال پر ان کا بھی ایک سوال ہوتا تھا۔' جان نکسن نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جس سے وہ صدام حسین کو بات کرنے پر مجبور کر تے۔

'ہمیں بات کرتے ہوئے یہ کوشش کرنی پڑی کہ صدام حسین کو یہ بتائیں کہ تاریخی طور پر کتنا اہم ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنا موقف پوری طرح کھل کر بیان کر سکیں۔' جان نکسن کے مطابق ان پر اور کوئی روک ٹوک تو نہیں تھی لیکن سی آئی اے نے چند موضوعات پر گفتگو اور سوالات کرنا لازمی قرار دیا تھا۔ ان میں سب سے اہم سوال عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی موجودگی کا تھا۔ 'وائٹ ہاؤس بس صرف ڈبلیو ایم ڈیز کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔' لیکن جان نکسن نے کہا کہ صدام حسین کے ساتھ کی جانے والی گفتگو اور بعد میں صدام حسین کے ساتھیوں سے بات کر کے انہیں یقین ہو گیا کہ صدام حسین نے کئی سال پہلے عراق کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا تھا۔

اور یہی وہ یقین تھا جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ناکام قرار دیا گیا تھا۔ جان نکسن کو صدام سے تفصیلی گفتگو کے باوجود سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے پاس ڈی بریفنگ کے لیے نہیں بلایا گیا۔ پانچ سال بعد 2008 میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے انہیں اسی مقصد کے لیے بلایا۔ جان نکسن نے صدر بش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوۓ کہا کہ وہ صدر بش اور صدام حسین دونوں کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں لیکن وہ صدام حسین کے ساتھ وقت بتانے کو زیادہ ترجیح دیں گے۔ جان نکسن کے مطابق صدر بش حقیقت سے دور تھے اور ان کے ساتھ صرف وہ لوگ تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔
'میرا خیال تھا کہ ہم سی آئی اے و الے کوئی اہمیت رکھتے ہونگے اور صدر ہماری بات سنیں گے لیکن درحقیقت ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی اور ہم کچھ بھی کہتے، سیاست ذہانت اور معلومات سے برتر تھی۔'

جان نکسن نے صدام حسین کے ہٹائے جانے کے بعد عراق میں ہونے والے حالات پر اپنی شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ بش انتظامیہ کے پاس صدام حسین کے بعد کے عراق کے لیے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی مشرق وسطیٰ کا خطہ بہت بہتر ہوتا اگر صدام حسین عراق کے صدر ہوتے۔

ایڈم ایلی، کیٹی السٹن
بی بی سی وکٹوریہ ڈربی شائر پروگرام


Post a Comment

0 Comments