Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

خوفزدہ نیویارک

ٹھیک بیس سال، پانچ ماہ بعد جب میں نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترا تو مجھے اندازہ تھا کہ بہت کچھ بدل چکا ہو گا۔ ان بیس سالوں میں تو دنیا ہی بدل چکی ہے اور وہ بھی اس لیے نہیں کہ دنیا خود اس تباہی کا منظر دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے شوق تھا کہ اس کے شہر کھنڈر اور بازار ویران ہو جائیں، لاکھوں انسان خاک و خون میں نہا کر منوں مٹی زمین تلے دفن ہو جائیں، فضاؤں سے برستے آگ کے شعلوں کی زد میں آکر بھسم ہوجائیں، بارود کے دھوئیں میں لہراتے تیز رفتار بموں کے ٹکڑوں سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ جائیں اور جو اس منظر سے بچنا چاہیں وہ دنیا بھر میں امان ڈھونڈھتے پھریں۔ خوفزدہ عورتیں، بچے، بوڑھے، سروں پر بچے کھچے سامان کی گٹھریاں اٹھائے ہوئے۔

یہ ایک چھوٹا سا منظر نامہ ہے۔ اس دنیا کا جو اس شہر نیویارک میں واقع دو بلند و بالا مینار نما عمارتوں کی تباہی اور تین ہزار کے قریب انسانوں کی موت کے بعد طاقت کے اندھے جنون نے تخلیق کیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر جس کے ساتھ کھڑے ہوکر میں نے بیس سال قبل اپنے کیمرے سے تصویر بنوائی تھی کہ اس زمانے میں نہ موبائل ہوتے تھے اور نہ ہی سیلفی کا تصور، اب اس عمارت کی جگہ ایک یادگار تعمیر ہے جسے گراؤنڈ زیرو کہتے ہیں۔ جب ان دونوں مینار نما عمارتوں سے جہاز ٹکرائے تھے تو ان میں ایک عمارت کے ملبے کا ایسا ڈھیر بن گیا تھا جس میں سے مضبوط لوہے کے سریے کی شاخیں باہر نکل رہی تھیں۔ گراؤنڈ زیرو کی یادگار اسی ملبے کے ڈھیر کو سفید سیمنٹ کے ایک ایسے ڈیزائن میں تشکیل دیا گیا ہے کہ ایک تجریدی آرٹ کا نمونہ لگتا ہے، جب کہ اس کے ساتھ والی جگہ پر ایک اسی طرح کا بلند و بالا مینار کھڑا کر دیا گیا ہے جسے نیشنل ٹاور کہتے ہیں۔ سامنے ایک چھوٹا سا پارک ہے جس میں دن رات سیاح آتے اور ان تین ہزار کے قریب انسانوں کی موت کو یاد کرتے ہیں۔
ٹھیک اس جگہ کھڑے ہوکر جہاں میں نے بیس سال پہلے تصویر بنوائی تھی، میں سوچ رہا تھا کیا افغانستان کے دشت لیلیٰ کے اس صحرا میں بھی کوئی یادگار تعمیر ہو سکے گی جہاں اس ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا انتقام انسانی تاریخ کے بدترین ظلم کو جنم دے گیا تھا۔ گراؤنڈ زیرو، امریکی طاقت کی علامت ورلڈ ٹریڈ سینٹر، دنیا کی فوجی قوت کا اکیلا بے تاج بادشاہ ایک ایسے ملک پر چڑھ دوڑا تھا جہاں ٹیکنالوجی کے نام پر ریلوے، ٹیلی فون اور دیگر عام روزمرہ کی سہولیات تک میسر نہ تھیں اور اس نے پوری دنیا کے دوسو کے قریب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ نیویارک جو دنیا کا معاشی دارالحکومت ہے، امریکی فوجی و معاشی طاقت کا چہرہ ہے، اس کی ایک عمارت کو زمین بوس کرنے کی سازش اس افغانستان میں تیار ہوکر پایہ تکمیل تک پہنچی۔

غصے میں تلملاتی ہوئی پوری دنیا نے امریکا اور اس کے چار درجن اتحادیوں کو یہ لائسنس دے دیا کہ وہ اس نہتے، کمزور، بے یارو مددگار ملک پر چڑھ دوڑیں۔کسی پڑوسی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ کابل کا سقوط ہو گیا، لیکن ابھی قندوز کے علاقے میں طالبان موجود تھے۔ قندوز کے شمال میں تخار، جنوب میں مزار شریف، مشرق میں بغلان جب کہ مغرب میں تاجکستان ہے۔ تاجکستان وہی ملک ہے جہاں سے امریکی افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ قندوز کا محاصرہ کرلیا گیا۔ امریکی فوجی امن کا پیغام لے کر آگے بڑھے اور طالبان کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا۔ افغانستان کا یہ واحد شہر تھا جہاں طالبان امریکی سپاہیوں کے جھانسے میں آ گئے اور ہتھیار ڈال دیے۔ 23 نومبر 2001ء کو ہتھیار ڈالے گئے۔ ایک سڑک کھولی گئی۔

جہاں تلاشی کے لیے چار پوائنٹس بنائے گئے۔ چودہ ہزار طالبان ہتھیار جمع کراکر تلاشی کے بعد سامنے کھڑے ساٹھ کنٹینروں میں ایسے ٹھونس دیے گئے کہ سانس لینا بھی دشوار تھا۔ انھیں منزل شبرغان جیل بتائی گئی، لیکن شبرغان پہنچنے سے ذرا پہلے قافلے کو ایک تپتے ہوئے صحرا ’’دہشت لیلیٰ‘‘ میں پہنچا دیا گیا۔ امریکیوں کو یقین تھا کہ سانس گھٹنے اور شدید دھوپ کی وجہ سے اکثر لوگ پہلے ہی مرچکے ہوں۔ البتہ جس کنٹینر میں تھوڑی ہل جل محسوس ہوئی اس پر فائر کھول دیے گئے۔ چودہ ہزار انسانوں کو کنٹینروں سے نکال کر ریت میں دفن کردیا گیا۔ ریت تو اڑتی ہے اور تھوڑی دیر میں ایک ٹیلہ اڑ کر کئی ہزار فٹ دور جا کر ایک دوسرے ٹیلے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

وہی ہوا، چودہ ہزار میں سے بیس ایسے تھے جن میں ابھی سانس باقی تھی، وہ نکل بھاگے اور دنیا اس بدترین قتل عام سے آگاہ ہوئی۔ گراؤنڈ زیرو کے سامنے دنیا بھر کے سیاح گیارہ ستمبر کے سانحے کو یاد کرتے ہوئے تصویریں بنا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اس دنیا میں انسانی حقوق یا عالمی ضمیر کے نام پر ہی کوئی اپنی تحریر میں ہی دشت لیلیٰ کے قتل کی یاد گار تعمیر کردیتا، جسے پڑھ کر لوگ بے بسی کے آنسو بہا لیتے۔ بس اتنا ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر اخبارات میں خبر چھپی، بش انتظامیہ کو تحقیق کے لیے کہا گیا۔ اس نے انکار کیا، اوباما نے اسے الیکشن کا نعرہ بنایا۔ صدر بنا، اپنے افریقہ کے دورے کے دوران کہا، میں نے تحقیقات کا حکم دے دیا، لیکن شاید آج کے دور کا ادب بھی طاقتوروں کی موت کی کہانیاں تحریر کرتا ہے۔

ورنہ دشت لیلیٰ کے مسافروں کی اذیت ناک موت پر کوئی ایک نظم، ایک افسانہ یا ناول کسی مصنف کو امر کرچکا ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہوگا، گراؤنڈ زیرو کے اردگرد گھومتے ہوئے میں اس شہر کے عالمی ضمیر کو یاد کررہا تھا۔ وہ شہر جو 1969ء میں اسٹون وال Stonewall نامی عمارت میں کھلی ہم جنس پرستوں کی ہار پر پولیس کے چھاپے کی یاد میں ہر سال ہم جنس پرستی کی پر غرور پریڈ Gay Pride Prade نامی جلوس نکالتا ہے اور ان کے حقوق کی آواز بلند کرتا ہے۔ ہر سال ہزاروں ہم جنس پرست مرد اور خواتین 57 سال پہلے ہونے والے معمولی تشدد کو یاد رکھتے ہیں۔ اسی شہر کے محلوں میں اس امریکی فوجی یونٹ کے آفیسران بھی محو عیش ہیں جنہوں نے رشید دوستم کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر دشت لیلیٰ کا قتل عام کیا تھا۔ ففتھ ایونیو سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ شروع ہوتی ہے اور اب اسی جگہ پر امریکا کا نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہتا ہے۔

سیکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند ہیں اور علاقے کے لوگ پریشان، رات گئے اس کے ٹرمپ ٹاور کے سامنے کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں اس نے امریکا کے میڈیا کے بڑے بڑے اینکروں اور کرتا دھرتاؤں کو بلا کر کہا تھا کہ آج میں دنیا کے جھوٹوں کے سب سے بڑے ہجوم کے درمیان کھڑا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سچ کیا ہے، اس کا سچ یہ ہے کہ امریکی سفید فام عیسائی ہر سیاہ فام، ہسپانوی، مسلمان اور یہاں تک کہ آزاد خیال، معاشی طور پر خود مختار عورتوں سے بھی نفرت کرتا ہے۔ اس نفرت کا اظہار اس کی جیت ہے اور اس کی جیت سے پورا نیویارک شہر خوفزدہ ہے۔

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments