Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

خانہ بدوش : جن کی زندگی ایک مستقل سفر ہے

'ہمارے باپ دادا بھی یہی کام کرتے آ رہے ہیں، ہم نسلوں سے ایسے ہی خانہ بدوشی کی زندگی جی رہے ہیں۔ ہمیں اب کہیں مستقل ٹھہر جانا اچھا نہیں لگتا۔'
یہ کہنا تھا کشمیر کے راستے گلگت سے واپس نقل مکانی کر کے پاکستان کے میدانی علاقوں کی طرف جا نے والے ایک خانہ بدوش کا۔ سینکڑوں بھیڑ بکریوں کو ہانکتے میلوں پیدل سفر کرتے گجر قبیلے کے ان لوگوں کا زیادہ تر انحصار انہی مال مویشیوں پر ہوتا ہے اور ان کی کوچے کوچے نگر نگر ہجرت کی وجہ بھی یہی ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگلت بلتستان کے سبزہ زار ان خانہ بدوشوں کے مویشیوں کی چراہ گاہیں بن جاتے ہیں۔ وہیں مختصر مال و اسباب سمیت خمیے گاڑے یہ خاندان مقامی لوگوں کو دودھ اور مویشی فروخت کرکے ضرورت کا سامان خرید لیتے ہیں۔ سردیوں کی آمد پر ریوڑ ہانکتے، گھوڑوں پر ساز و سامان لادے، بیوی بچوں کے ہمراہ ان خانہ بدوشوں کی منزل کھاریاں ہے۔

ایک خانہ بدوش کا کہنا تھا 'سردیوں کے موسم میں ہم پنجاب کے میدانوں میں سرکاری زمین پر خیمے لگا لیتے ہیں وہاں کھلے میدانوں میں لگا سبزہ مویشیوں کا چارہ بن جاتا ہے۔ چھ ماہ بعد جب پھول کھلنے لگیں گے ہم واپس پہاڑی علاقوں کو لوٹ آئیں گے۔' مویشیوں کا ریوڑ جگہ جگہ چرتا اور سڑکوں پر گاڑیوں کے شور میں کبھی بھٹکتا کبھی راستہ بناتا آگے بڑھ رہا تھا، کچھ دور گھوڑوں پر سوار عورتیں اور بچے شام ڈھلنے پر پڑاؤ ڈال چکے ہیں۔ یہاں رات کا کھانا بن رہا ہے۔ کچھ عورتیں قریبی آبادی سے پانی بھر کر لا رہی ہیں۔
کہیں لمبا سفر کرکے آنے والے گھوڑوں کے نال بدلے جا رہے ہیں۔ خانہ بدوشوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھوڑے دن میں اوسطاً چالیس کلو میٹر سفر کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے اتنے سفر کے بعد بھی ان کے گھوڑے کم از کم تیس برس تک جیتے ہیں اور ان کی عمر عام گھوڑوں سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ ان خانہ بدوشوں کے گھوڑے اور خچر بھی ان کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ پہاڑی علاقوں پر جہاں گاڑی نہیں جا سکتی وہاں ان کے جانوروں کی مدد سے مال لے جایا جاتا ہے۔ حتی کے فوج کو بھی اپنی رسد آگے پہنچانی ہو تو انہیں خانہ بدوشوں کے خچروں پر لاد کر لے جاتے ہیں اور اس کے بدلے انہیں اجرت دی جاتی ہے۔

خانہ بدوشوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھوڑے دن میں اوسطاً چالیس کلو میٹر سفر کرتے ہیں۔ موتیوں سے کی گئی آرائش گجروں کی پہچان ہے۔ ان کے کپڑوں، زیور، سامان کے بڑے بڑے تھیلوں، چٹائیوں حتیٰ کے مسالوں کے ڈبوں کو بھی اس خاص آرائش سے سجایا گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی آن پہنچا۔ جس کا رخ قریب ہی موجود دریائے جہلم کی طرف تھا۔ مویشی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی جانب دوڑ رہے تھے۔ چھوٹے بچے خوش ہیں ریوڑ کے ساتھ آنے والے اپنے اپنے والد کو پکارتے وہ کافی پر جوش ہیں۔ کیا عورتیں اور بچے کسی ایک جگہ رک کر گھر بنانے کو نہیں کہتے۔ 'ہم 1947 کے مہاجر ہیں ، ہمیں اس کام میں مزہ آتا ہے۔ پنجاب میں زمین لے کر گھر بھی بنائیں ہیں لیکن گھر والے بھی کہتے ہیں کہ پہاڑوں پر گزرا وقت جنت سے کم نہیں اس لیے ہم کہیں ٹک نہیں سکتے۔'
 
یہ کہتے ہیں زمین اور گھر تو خریدے ہیں لیکن اس زندگی میں زیادہ لطف ہے
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی ڈر نہیں اور نہ کبھی سکیورٹی کا کوئی خطرہ ہوا۔ انہیں کبھی کہیں بھی کوئی نہیں روکتا۔ ان میں سے بعض بچے سکول بھی جاتے ہیں۔ سردیوں کے دنوں میں وہ سکولوں میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ لیکن اکثریت کا کہنا ہے کہ بچے بھی اس آزاد ماحول کے عادی ہیں۔ انہیں سکول جانا پسند ہی نہیں۔ لیکن ان کے قبیلے کے کچھ لوگ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور وہ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ 'وہ نوکریاں بھی کرتے ہیں اور ہم سے بھی وہاں رہنے کو کہتے ہیں لیکن ہمیں اس زندگی میں زیادہ مزہ آتا ہے۔'

عورتوں یا بچوں کے بیمار ہونے کی صورت میں کچھ لوگ راستے میں رک جاتے ہیں لیکن باقی سب کا سفر جاری رہتا ہے۔ فی زمانہ موبائل فون کی سہولت نے ان کا رابطہ تو آسان بنا دیا ہے لیکن ماضی میں کیا کرتے تھے؟ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ ہم نسل در نسل یہی کام کرتے اور سفر کرتے آ رہے ہیں۔ ہم نے طے کر رکھا ہوتا ہے کہ شام ہونے پر رکنا ہے اور خیمہ لگانے ہیں۔

تابندہ کوکب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام


Post a Comment

0 Comments