سپریم کورٹ نے 2 روز قبل ناکافی شواہد کی بنیاد پر 19 سال سے قید سزائے موت کے ملزم مظہر حسین کو بری کرنے کا حکم تو جاری کیا لیکن یہ حکم نامہ قیدی کے گھر والوں کو مزید اذیت میں مبتلا کرگیا۔ مظہر حسین کو 1997 میں اسماعیل نامی ایک شخص کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جو 2 سال قبل دوران قید وفات پاچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران کئی سال سے پابند سلاسل قتل کے ملزم مظہر حسین پر جرم ثابت نہ ہوسکا۔ سماعت کے بعد جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ ملزم کے 19 سال ضائع ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟
انہوں نے کہا کہ ' فلموں میں سنا کرتے تھے جج صاحب میری زندگی کے 12 سال لوٹا دیں'۔ جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ نظام عدل سچ کے بغیر نہیں چل سکتا، سب سے پہلے جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور ججز کو بھی حقائق کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے ناکافی شواہد پر مظہر حسین کو بری کرنے کا حکم دے دیا، لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ قیدی کا 2 سال قبل انتقال ہوچکا ہے، تاہم عدالت کو اس سے مطلع نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد کے قریب ڈھوک حیدر علی سہالہ کے رہائشی مظہر حسین پر 1997 میں اسماعیل نامی ایک شخص کے قتل کا الزام لگایا گیا، جنھیں 3 اکتوبر 2003 میں جیل بھیجا گیا۔ 21 اپریل 2004 کو مظہر حسین کو اسلام آباد کی سیشن عدالت کے جج اسد رضا نے سزائے موت اور 3 لاکھ روپے جرمانہ یا 6 ماہ قید کی سزا سنائی، جسے بعدازاں ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ جیل میں قید کے دوران مظہر حسین کو 21 جون 2005 کو ایک اور قیدی ملازم حسین کے قتل کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ بعدازاں مظہر حسین کو 5 فروری 2013 میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے جہلم کی ڈسٹرکٹ جیل بھیج دیا گیا، جہاں مارچ 2014 میں ان کا انتقال ہوگا۔
عدالتی فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مظہر حسین کے اکلوتے بیٹے خواجہ شہباز نے بتایا کہ ان کے خاندان نے گذشتہ 19 سال انتہائی تکلیف میں گزارے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری دو نسلیں تباہ ہوگئیں، حتیٰ کہ ہمارے چاچا اور تایا بھی کیس کی پیروی کرتے کرتے فوت ہوگئے۔' خواجہ شہباز نے کہا کہ 'انھیں افسوس ہے کہ ان کے والد اپنی بے گناہی ثابت ہونے کے موقع پر اس دنیا میں نہیں، لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے باقی قیدیوں کے لیے بھی امید کی ایک کرن پیدا ہوگی جو بغیر کسی جرم کے جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں'۔ مظہر حسین کے اہلخانہ کے مطابق ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا گیا تھا، لیکن عدالت کو کسی نے مطلع نہیں کیا۔
دوسری جانب اس عرصے کے دوران کیس کا مدعی بھی وفات پاچکا ہے۔
0 Comments