Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عرب دنیا کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی

عرب دنیا اس وقت اپنی تاریخ کے خونیں دور سے گزر رہی ہے۔ ہر روز ہلاکتوں
کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لاشوں ،مسخ شدہ بچوں اور جلتے ہوئے دیہات اور شہری علاقوں کی تصاویر ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔تیرتی ہوئی لاشوں کی تصاویر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک عرصے سے ہورہا ہے اور ہم سب حیران وپریشاں ہیں کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ یہ خطہ پہلے اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ وہ جرائم سے قریب قریب پاک ہے لیکن اب وہ میدان جنگ بن چکا ہے۔ اس تبدیلی کے عمل کو دیکھنا ایک تکلیف دہ امر ہے اور کسی پر انگلی اٹھانے کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ ہم سب ہی اس کے برابر کے ذمے دار ہیں۔

آج جو کچھ رو نما ہو رہا ہے،اس کے بیج بہت گہرے ہیں اور اس کی جڑیں برسوں تک نظرانداز کیے جانے ،محرومیوں اور ایک سماجی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں پیوست ہیں۔ ایک سماجی ڈھانچا ایک ایسی سول سوسائٹی کی تشکیل میں معاون ہوسکتا تھا جس میں لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جاتا اور انھیں عزت و وقار سے نوازا جاتا۔ 1960،70 اور 80ء کے عشروں میں دنیا تیزی سے آگے بڑھی تھی اور لوگوں نے ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا،شہری حقوق کے احترام کا غلغلہ بلند ہوا اور حقوق کے لیے بہتر شعور اجاگر ہوا تھا لیکن عرب دنیا اور اس کا میڈیا اس عرصے کے دوران میں اپنے ''مضبوط لیڈروں'' کے فضائل ومحاسن کی مدح سرائی کرتے رہے تھے۔
آمروں کی حکومتیں
اس عرصے میں عرب دنیا میں آمر اقتدار پر قابض ہوگئے اور دوسری جانب لوگوں میں روحانیت پیدا کرنے اور انھیں اچھے اعمال کی رغبت دلانے کے بجائے مذہبی جوش وخروش کو پروان چڑھایا گیا جس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور منافرت کو فروغ ملا۔ نوجوان کسی نمونے کے کردار کی عدم موجودگی کی وجہ سے خود ساختہ مذہبی قائدین کے گرد مجمع لگانے لگے اور یوں ان نوجوانوں کے نفرت اور تشدد کے پرچارک کے طور پر اُبھرنے کا آغاز ہوا۔ ناکام عرب بہار نے،جس سے سیاسی اور سماجی خلا کی راہ ہموار ہوئی،مزید افراتفری پیدا کی اور طوائف الملوکی کو ہوا دی۔ بہت سے عرب لیڈر یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ لوگ عزت وقار کی زندگی اور معاشی مساوات چاہتے ہیں اور ان کی زندگیوں کے فیصلوں میں ان کے کہے کا بھی کوئی عمل دخل ہونا چاہیے۔

لیکن یہ سب کچھ آج ایک تاریخ ہے۔آج جنگیں جاری ہیں۔عرب عربوں ہی کو براہ راست یا اپنے گماشتوں کے ذریعے قتل کررہے ہیں۔ میں فوجوں ،ملیشیاؤں اور غیرملکی فوجیوں کو داعش ایسے قاتل ٹھگوں کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں اور وہ شہروں کے شہر تباہ وبرباد کررہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ وہ ان شرپسندوں کو دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر پکڑنے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتے ہیں؟ عراق ،شام ،یمن اور لیبیا ارباب اقتدار کے غیر لچک دار رویوں کی وجہ سے جہنم زار بن چکے ہیں۔ تمام سپر طاقتیں شام اور عراق میں اپنے ہی ''دشمنوں'' کو ہلاک کررہی ہیں۔

عربوں کے پاس مشاہدے اور دیکھتے رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ وہ غیر ملکی سازشوں پر چہ میگوئیاں کرتے ہیں۔ ایک سیاسی حقیقت پسند کے طور پر مجھ پر تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے لیکن ہم نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔عرب لیگ ناکام ہو چکی اور عرب لیڈروں اور اداروں کے درمیان ابلاغ اور مواصلت کا مکمل انہدام ہوچکا ہے۔ اوپر سے مجہول میڈیا ہے۔ اس کے رٹو طوطے اپنے مالکوں ہی کی جگالی کرتے ہیں اور انھوں نے ہمیں اس خونیں دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

نیتن یاہو نے اس وقت کو مزید فلسطینیوں کو موت کی نیند سلانے کے لیے استعمال کیا ہے اور عرب سرزمین پر اپنے لوگوں کو بسانے کا پروگرام شروع کررکھا ہے۔ دہشت گرد یہود کے ریوڑ مقبوضہ سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں اور فلسطینی خواتین اور بچوں کو بالکل قریب سے گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اور اسرائیل میں اس سب کچھ پر خوشیوں کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اور لڈو بٹ رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی لکھاری نے شام اور عرب دنیا میں جاری تنازعے کے حوالے سے لکھا ہے :'' کاش!یہ کبھی ختم نہ ہوں''۔
عرب اس پیغام کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

خالد المعینا
----------------------------------------------------
خالد المعینا سعودی عرب کے سینیّر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔وہ سعودی عرب کے مختلف میڈیا اداروں میں گذشتہ تیس سال کے دوران مختلف عہدوں پرکام کرچکے ہیں۔آج کل وہ اخبار سعودی گزٹ کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔ان سے ای میل kalmaeena@saudigazette.com.sa پر برقی مراسلت کی جا سکتی ہے۔ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ یہ ہے:: @KhaledAlmaeena


Post a Comment

0 Comments