Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سراج الحق اور عمران خان کی منزل ایک راستے فرق ہیں

امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک مکمل جمہوری جماعت کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کسی قانون وراثت یا کسی بیک چینل ڈپلومیسی سے جماعت اسلامی کی سربراہی حاصل نہیں کی ہے۔ بلکہ انہوں نے ووٹ کی طاقت سے سربراہی حا صل کی ہے۔ اس لئے انہیں ووٹ کی طاقت اور جمہوریت کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا انداذہ ہے۔ شاید اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری دنگل سے پورے ملک کے عوام پریشان ہیں اس کے حل کی چابی سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کو کسی نظریہ ضرورت کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ جرأت سے فیصلہ کرے ،قوم عدلیہ کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں ،کبھی ایک مظلوم اور دوسرا ظالم اور پھر پہلا ظالم اور دوسرا مظلوم بن جاتا ہے اور مصنوعی لڑائی لڑکر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ہی لٹیرا کلب کے ممبر ز ہیں ۔

سراج الحق نے سپریم کورٹ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کے حوالہ سے درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ لیکن وہ سپریم کورٹ پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ کرپشن کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے شہر شہر جا رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت کو کسی احتجاج کے نتیجے میں ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ سراج الحق اداروں کی کارکردگی سے خوش بھی نہیں ہیں لیکن وہ اداروں کو پامال کرنے کی مہم جوئی بھی نہیں کر رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ سراج الحق میدان میں ہیں بھی اور میدان میں نہیں بھی ہیں۔ وہ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نکالنا بھی چاہتے ہیں لیکن نکالنے کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں پا نامہ کے حوالہ سے درخواست بھی دائر کر رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کو برا بھلا بھی نہیں کہہ رہے۔ بلکہ سب کو کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح جو لوگ حکومت اور میاں نواز شریف کو رات سے پہلے گھر بھیجنے کے خواہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ سراج الحق سامنے آبھی نہیں رہے اور صاف چھپ بھی نہیں رہے ۔
لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ سراج الحق ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنے کی جدو جہد بھی کر رہے ہیں لیکن انہیں خود اقتدار میں آنے کی جلدی نہیں ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں لیکن نظام جمہوریت کو بھی بچا رہے ہیں۔ سراج الحق کی فوج کے حوالہ سے پالیسی بھی واضح ہے وہ کہتے ہیں ۔ فوج کو اپنے مقاصد کیلئے سیاست میں گھسیٹنے والے ملک و قوم سے مخلص ہیں نہ فوج سے ۔پاکستان اور فوج دونوں ضروری ہیں ،اس ادارے کو سرحدوں کی حفاظت سے ہٹا کر کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال کرنے کی قوم اجازت نہیں دے گی۔ میں حیران ہوں کہ سراج الحق کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی فوج کے حوالہ سے یہ پالیسی نہ فوج کو پسند ہے اور نہ ہی ان کو پسند ہے کہ جو فوج کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھو۔ لیکن ان کی کوئی نہیں سن رہا۔ نہ حکومت ان کی سن رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ جو حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ہر حد سے گزر جانے کے لئے بے تاب ہیں۔

سراج الحق کا دعویٰ ہے کہ ملک کو دیانتدار قیادت صرف جماعت اسلامی دے سکتی ہے ۔ اگر میں ملک سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے نکلا ہوں تو میرے دائیں بائیں کوئی آف شور کمپنی کا مالک ،شوگر مافیا کا ڈان ،قرضے ہڑپ کرنے والا یا سمگلر نہیں قوم سے اپنی امانت ودیانت کا لوہا منوانے والے کھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مغرب اور امریکہ کے ذہنی غلام مسجد و محراب اور قرآن و سنت کے احکامات کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جبکہ ملک کے اسی فیصد عوام ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ سراج الحق اور عمران خان ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ لیکن ان کے لہجے اور انداز میں فرق ہے۔ دونوں کی سیاست کا محور کرپشن ہے۔ دونوں پانامہ میں میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ایک ہوش قائم رکھنے کی بات کر رہا ہے۔ دوسرا جوش میں سب کچھ تباہ کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ لیکن شاید ہمارے ملک میں سلطان راہی سٹائل پسند کیا جا تا ہے۔ لوگ ایسے ہیرو کو پسند کرتے ہیں جو سب کچھ نیست و نابود کر دے۔

میں کنفیوژ ہوں کہ سراج الحق سپریم کورٹ پر یقین رکھنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان سپریم کورٹ سے بالا بالا ہی گیم کو ختم کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ سراج الحق گیم کو پانامہ تک محدود رکھنے کی بات کر رہے ہیں عمران خان اسی میں سکیورٹی مسائل کو بھی ڈال رہے ہیں۔ وہ فوج کو اپنے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔ سراج الحق فوج سے فاصلہ برقرار رکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ فرق شاید ابھی سیاسی شعور کے لئے مشکل ہے۔ عوام کو یہ فرق سمجھ نہیں آرہا۔ لیکن سراج الحق کا راستہ مشکل تو ہے لیکن صحیح راستہ یہی ہے۔ اور انہیں فخر ہونا چاہئے کہ وہ صحیح راستہ پر چل رہے ہیں۔

مزمل سہروردی  

Post a Comment

0 Comments