Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

چین نے امریکا کو اس کی نئی ’اوقات‘ بتادی

امریکی صدر باراک اوباما سمیت متعدد امریکی ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ دنیا
بہت بدل چکی ہے، یہ نوے کی دہائی نہیں تھی۔ شاید اب بھی امریکی حکمران اور پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو کسی نہ کسی اندازمیں دنیا پر نافذ کرلیں گے حالانکہ یہ سارے خیال وخواب ہوا ہوچکے ہیں۔ بذات خود سنجیدہ مغربی ذرائع ابلاغ امریکی حکمرانوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ اب یہ دنیا امریکہ کی دنیا نہیں ہے بلکہ امریکہ کے بعد کی دنیا ہے، نیو ورلڈ آرڈر ناکام ہوچکا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہئے لیکن امریکی ماننے کو تیار ہی نہیں تھے، شاید اب انھیں یہ حقیقت سمجھ آجائے کیونکہ امریکی صدر کے حالیہ دورہ چین کے موقع پر چینی حکام نے علامتی طورپر امریکی حکمران کو ان کی نئی اوقات بتا دی۔ 

اس ضمن میں پہلا واقعہ چینی شہر ’ہانگ زو‘ کے ائیرپورٹ پر ہوا جہاں صدر اوباما کے امریکی طیارے ایئر فورس ون سے اترنے کوئی خاص سیڑھی موجود نہیں تھی۔
دوسرا واقعہ  تب ہوا جب ایک چینی اہلکار نے امریکی صدارتی مشیر سے اس بات پر بحث کی کہ صدر اوباما کے ساتھ آئے صحافیوں کو کسی بھی مقام پر ان کے آس پاس رہنے سے منع کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس کے اہلکاروں کو بھی طیارے کی لینڈنگ کے دوران سیکیورٹی کے سخت ضوابط سے مستثنیٰ قرار نہ دیا گیا۔ امریکی حکام کا کہناہے کہ یہ اس روایت کی خلاف ورزی تھی ۔ جس کی پاس داری امریکی صدر کے کسی بھی غیر ملکی دورے کے موقع پر کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ  امریکی صدر جب بھی بیرونی دورے پرجاتا ہے تو اس کے ساتھ رپورٹرز ہوتے ہیں تاہم اس بار  اوباما کے ہانگ زو کے ائیرپورٹ پر بوئنگ 747 سے اترتے وقت چینی سیکورٹی حکام  نے امریکی رپورٹرز کو لگائی گئی نیلے رنگ کی رسی کے پیچھے دھکیل دیا ۔ جب امریکی صدارتی مشیر نے اصرار کیا کہ امریکا اپنے صدر کے لیے ضابطے خود طے کرے گا تو چینی اہلکار نے اس پر بلند آواز میں یہ جواب دیا: ’’یہ ہمارا ملک اور ہمارا ایئرپورٹ ہے۔‘‘

صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس نے صدراوباما کے قریب ہونا چاہا تو چینی اہلکار نے انھیں اس کی اجازت نہ دی اور انھیں امریکی صدرسے دور رکھا۔ مسز رائس، جو  اعلی ترین امریکی حکام  میں سے  ہیں، چینی اہل کاروں کی جانب سے استقبال کے اس انداز  پر ناخوش نظر آئیں ۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں رائس کا کہنا تھا، ’’انہوں(چینیوں) نے وہ کیا ہے جس کی ہمیں توقع نہ تھی۔‘‘ نیویارک ٹائمز کے مطابق مسز رائس اس بات پر بھی ہکا بکا بلکہ ناراض تھیں کہ امریکی صدر کو ایسے دروازے سے نکلنے پر مجبور کیا گیا جو عموماً افغانستان ایسے انتہائی سخت حفاظتی اقدامات والے دوروں پر کھولا جاتا ہے۔ بعد ازاں صدر اوباما نے ان چینی عہدیداروں کی جانب سے تکرار کے حوالے سے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ تاہم اس کے ساتھ ہی اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جی20 جیسے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ صرف چین تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے ایک صحافی کو گلوبل وارمنگ کے موضوع  پر منعقدہ  ایک اجلاس میں داخلے سے نام کے مسئلے پر روک دیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر اسے داخلے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز ‘نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’چین نے جس انداز سے باراک اوباما کا استقبال کیا وہ انتہائی توہین آمیز اور ٹھیس پہنچانے والا تھا۔ یہ استقبال خود چین کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔‘‘رپورٹ کے مطابق چین پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر امریکی صدر کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ برطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے لکھا :’’ چینی قیادت پر الزام ہے کہ اس نے بارک اوباما کی جان بوجھ کے تحقیر کی ہے۔ انھیں جہاز سے اترنے کے لئے ان کے شایانِ شان سیڑھی فراہم نہیں کی گئی، نتیجتاً انھیں جہاز کے پچھواڑے سے اترنا پڑا۔ چینیوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی، روسی صدر ولادی میر پوٹن، جنوبی کورین صدر پارک جیون ہائے، برازیلی صدر مائیکل ٹیمر اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے کے لئے ریڈ کارپٹ بچھایا لیکن  دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے سربراہ ، جو اپنے آخری دورے پر چین آئے تھے، کو نہ صرف  جہاز کے پیٹ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا گیا بلکہ ان کے سامنے ہی چینی اور امریکی حکام کے درمیان شدید لفظی جھڑپ بھی ہوئی۔

میکسیکو کے سابق سفیر برائے چین جارج گوجارڈو کو بھی یقین ہے کہ اوباما کے ساتھ ہونے والا حقارت آمیز سلوک دانستہ تھا۔ یہ حرکتیں  غلطی سے نہیں ہوا کرتی ہیں۔ میں نے چھ سال تک کا عرصہ چینیوں کے درمیان گزارا ہے۔  میں نے میکسیکو میں صدر شی جن پنگ  کا استقبال کیا  اور  اپنی سفارتی مدت کے دوران اپنے ملک کے دو صدور کا بیجنگ میں بھی استقبال کیا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ کام کیسے ہوتے ہیں۔ اوباما کے ساتھ حقارت کا مظاہرہ ہوا ہے، یہ غلطی نہیں تھی، بالکل بھی نہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ یہ حقارت آمیز سلوک ہے، اس اندازمیں چین نے امریکہ سے کہاہے کہ آپ جانتے ہو، آپ کی ہمارے نزدیک کوئی خاص حیثیت نہیں ہے، آپ ہمارے لئے ایک عام سے فرد ہو‘‘۔  یہ چینی تکبر کا اظہار ہے، یہ چینی نیشنلزم کا برملا اعلان ہے کہ اب امریکہ نہیں بلکہ چین  سپرپاور ہے۔

عبید اللہ عابد

Post a Comment

0 Comments