Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

میمن والسیر کور سے ایدھی فاؤنڈیشن تک

کسی یتیم کو سہارا چاہیے یا پھر کسی بے نام بچے کو والد کا نام، زخمی کو ہسپتال پہنچانا ہو یا بیمار کو دوا چاہیے ہو، بھوکے افراد کا پیٹ بھرنا ہو یا پھر لاوارث لاش کو دفنانا ہو۔ یہ سب اُمور ایدھی فاؤنڈیشن بغیر کسی معاوضے اور احسان جتائے بغیر کرتی ہے۔ 115 ہیلپ لائن یا ملک بھر میں کام کرنے والے 117 ایدھی سینٹرز بے رحمی اور اذیت کا شکار افراد کے مداوا کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت اور مذہبی تفریق سے نفرت کرنے والے عبدالستار ایدھی نےساری زندگی ایک ہی پیغام دیا کہ ’انسان بنو، انسانیت پھیلاؤ ، مذہب اور ذات پات بعد میں انسانیت پہلے۔‘
20 سال کی کم عمر میں ایدھی نے انسانیت کی مدد کے لیے یہ اصول اپنایا کہ حکومت وقت سے کبھی مدد نہیں لینی اپنی مدد آپ کا شعور عوام میں اجاگر کرنے کے لیے انھیں کے چندے کے انھی کی مدد کا آغاز کیا ۔

وہ کہتے تھے کہ ’میں صرف پاکستانیوں سے لیتا ہوں میں انھیں خیرات دینے والی قوم بنانا چاہتا ہوں۔‘ ایدھی فاؤنڈیشن کے قیام کے پیچھے مسلسل چھ دہائیوں پر مشتمل ان کی جدوجہد ہے۔ 1948 میں میٹھادر میں میمن برادری نے ایک مخیر تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ایدھی نے کچھ ہی عرصہ اس تنظیم کی ڈسپینسری میں کام کرنے کے بعد یہ مطالبہ کیا کہ اسےمیمن برادری تک محدود نہیں کرنا درست نہیں ہے مگر یہ مطالبہ نہیں مانا گیا اور انھیں تنطیم چھوڑنا پڑی۔ ایدھی نے سماجی خدمات کا آغاز سنہ 1950 میں ایک ضعیف شخص کو پاکستان سے انڈیا ان کے خاندان تک پہنچا کر کیا۔
سنہ 1951 میں میٹھادر کے علاقے میں دو سے تین سو روپے عوض پگڑی پر دوکان حاصل کی اور وہاں ایک ڈسپنسری قائم کی۔ ابتدا میں اس کا نام ’میمن والسیر کور‘ رکھا گیا۔ سیمنٹ کا بینچ ایدھی کا بستر تھا کیونکہ وہ ڈسپینسری کو کبھی بند نہیں کرتے تھے۔ برادری ازم سے باہر نکلنے کے لیے ایدھی نے ڈسپنسری کا نام بدل دیا اور وہاں ایک ڈسپنسری کے علاوہ ایک ’میٹرنٹی ہوم‘ کھولا اور نرسنگ کورس بھی شروع کروایا۔ ڈسپنسری کے باہر آویزاں بینر پر یہ درج تھا ’ انسانیت کے نام پر جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘
 
1957 میں میٹھا درسے باہر ان کی تنظیم نے سماجی خدمات کا آغاز کیا جو کہ ملیر میں ’ہانگ کانگ فلو‘ کے متاثرین کی مدد کے لیے تھا۔ ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو 20 ہزار روپے دیے جس سے انھوں نے ایک پرانی وین خریدی اور اسے ’غریب آدمی وین‘ کا نام دیا۔یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے سرکاری ہسپتال کے پاس صرف پانچ ایمبولینس تھیں۔ آنے والے عرصے میں لوگوں نے کھالیں، کپڑے اور خواراک بھی ڈسپینری بھجوانی شروع کی۔ جب ایدھی نے، خواتین کے لیے میٹرنٹی ہوم بنایا، پھر اپاہج اور معمر افراد کو چھت فراہم کرنے کی کوشش کی اور تعفن زدہ لاشوں کی تدفین کا آغاز کیا تو ان کے خلاف مخالفین نے پروپیگنڈا مزید بڑھا دیا۔ ان کو ملنے والے عطیات پر بھی سوال اٹھے۔

ایسے میں ایدھی نے دو کام کیے ایک تو ڈسپینری کا نام ’ایدھی ڈسپنری‘ رکھا اور دوسرے باہر بورڈ پر یہ عبارت لکھی ’عطیات دینے والا کوئی بھی شخص شک و شبہے کی صورت میں اپنی رقم واپس لے سکتا ہے۔‘ایدھی فاؤنڈ.یشن کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی۔ 1988 میں فاؤنڈیشن نے پاکستان کی سب سے بڑی تدفین سروس شروع کی۔ وہ لاوراث لاشوں کو کفناتے تھے، یہ نہیں دیکھتے تھے کہ حادثے کیسے پیش آیا، لاش کتنی تعفن زدہ ہے مرنے والا کس مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے تھے ’مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ میتیں میری تمھاری یا کسی کی بھی ہو سکتی ہیں، تو کراہیت کیسی؟ سنہ 1990 تک ایدھی کی ایمرجنسی ہیلپ لائن 115 منظور ہو چکی تھی۔

کراچی میں جب قتل و غارت کا آغاز ہوا تو ایدھی نے تمام ایمبولینس کے عملے کو ہدایت کی کہ وہ آنکھیں اور کان بند کر کے اپنا کا جاری رکھیں کیونکہ انھیں متاثرہ افراد کو جلد ازجلد ہسپتال پہنچانا ہے۔ 1998 تک ملک بھر میں پھیلا ایدھی فاؤنڈیشن کے نیٹ ورک کو ایک کنٹرول ٹاور سے منسلک کر دیا گیا۔ ملک بھر میں آج 335 ایدھی سینٹرز ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں 17 ایدھی ہومز ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن 2000 ملازمین کام کرتے ہیں۔ چار ہوائی جہاز، 1800 ایمبولینسز، کینسر ہسپتال، ہوم فار ہوم لیس، ایدھی شیلٹرز اور ایدھی ویلج ، ایدھی چائلڈ ہوم ، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر اور ایدھی ویٹنری ہسپتال کام کر رہے ہیں۔

سیلاب اور سمندری حادثات کے موقع پر رسیکیو کے کشتیاں بھی موجود ہیں۔  ہر ایدھی سینٹر کے باہر ایک جھولا ہے جس کے بارے میں ایدھی کہتے تھے کہ ’اپنے بچے کو کبھی کوڑے میں مت پھینکو، قتل مت کرو، اُسے جھولے میں ڈال دو۔‘بلقیس ایدھی ٹرسٹ کے ہیڈ کواٹر میں میٹرنٹی ہوم چلاتی ہیں، سالانہ تقریباً ڈھائی سو بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایدھی ہومز مز اور ویلفیئر سینٹرز میں کل 8500 بچے اور مرد خواتین کو سائبان فراہم کیا جاتا ہے جو لاوارث، ہیں یا کسی وجہ سے ان کے خاندان والے انھیں خود ایدھی سینٹر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اپنی دن بھر کی مصروفیات کے باوجود ایدھی ہوم میں پرورش پانے والے یتیم بچوں کے لیے عبدالستار ایدھی کچھ وقت ضرور نکالتے تھے۔

افعانستان، برطانیہ، امریکہ، بنگلہ دیش، جاپان ، نیپال اور آسٹریلیا میں بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے دفاتر موجود ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے ٹرسٹیز میں ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اورپانچ بچے شامل ہیں۔ فاؤنڈیشن کے ہیڈکوراٹر سے منسلک ان کی چھوٹی سی رہائش گاہ جہاں دنیا کی کوئی پرتعیش چیز دکھائی نہیں دیتی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کے امیر ترین غریب شخص اپنے پیچھے صرف انسانیت کا درس اور فلاح کا ایسا نظام چھوڑ کر گئے ہے۔ جو یہی پیغام دیتا ہے کہ کامیابی کے لیے سرمایہ نہیں بلکہ سچی لگن اور مسلسل کوشش درکار ہے۔

حمیرا کنول
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments