Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حقیقی زندگی کے رابن ہڈ

دنیا بھر میں بہادر خواتین اور مردوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر ملک اور قوم کے اپنے اپنے ہیروز ہوتے ہیں جنہوں نے غیر معمولی کارہائے انجام دے کر اپنا نام بنایا ہوتا ہے لیکن کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی شہرت صرف ان کے اپنے ملک اور قوم تک محدود نہیں رہتی۔ وہ جغرافیائی حدود سے پار ہر قوم اور ملک کے بھی ہیرو ہوتے ہیں۔ کسی کردار سے متاثر ہونے کیلئے قطعی ضروری نہیں کہ وہ حقیقت میں بھی موجود ہو ایسے ہی ایک افسانوی کردارکا نام رابن ہڈ بھی ہے جو امیروں کیلئے لٹیرا تھا تو غریبوں کا مسیحا۔ اگرچہ یہ ایک فرضی کردار تھا لیکن حقیقی زندگی میں بھی کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے رابن ہڈ کی طرز پر زندگی کے انداز اپنایا۔
ایسے کئی باغی ہیرو اپنے مرنے کے بعد بھی مقبولیت کو چھوتے رہے ہیں۔ آئیے آپ کو حقیقی زندگی کے چند ایسے کرداروں سے ملواتے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں ایسی دھوم مچائی تھی کہ لوگ آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔ بظاہر یہ کردار منفی دکھائی دیتے ہیں لیکن جن لوگوں کی دادرسی ہوتی تھی اور ان کے دکھوں کا مداوا اور زخموں پر مرہم رکھا جاتا تھا وہ ایسے ہیروز کو کسی دیوتا سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیرل گرین وڈ کیرل گرین وڈ رئیل لائف کی روبن ہڈ ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کسی فاتحانہ انداز میں گھومتی پھرتی ہیں۔ ان کا لباس روبن ہڈ کا سا ہوتا ہے اور ان کے ہاتھ میں تیر کمان بھی ہوتا ہے۔ وہ برطانوی کاؤنٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ جب بھی گھر سے نکلتی ہیں تو ان کا یہ اسٹائل سب کو بھا جاتا ہے۔ یورج جانوسک یورج جانوسک کی کہانی 1711ء کی ہے۔ ان کی شہرت کو اس وقت کی شاعری، ناولوں، قصوں، لوک کہانیوں، اور فلموں میں پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔

 1688ء میں پیدا ہونے والے یورج نے سلواکیہ میں آنکھ کھولی تو نا انصافی کا راج دیکھا۔ اپنے اردگرد ظلم کا سیاہ دور دیکھ کر یورج کا دل کڑھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے صرف 15 برس کی عمر میں اس ظلم کے خلاف علم بغاوت اٹھایا۔ بعد ازاں اس نے شاہی فوج میں بھی شمولیت اختیار کی۔ پھر ملازمت چھوڑی اور یورج قزاقوں کے اس گروہ میں شامل ہو گئے جس کی سربراہی تھامس اورک کر رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس گروہ کی سرپرستی یورج کو سونپ دی گئی۔ اس کی وجہ اس کی سوجھ بوجھ اور بہادری تھی۔ وہ مختصر وقت میں بہترین فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی مزین تھا۔ ڈاکوؤں کے اس گروہ کے ساتھ اس نے پہاڑوں دریاؤں اور وادیوں کو کھنگال ڈالا۔ وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں کی مدد کرتا۔ اس کے نام کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ سرکاری اہلکار اس کی تلاش میں مارے مارے تو پھرتے لیکن آگے بڑھ کر گرفتار کرنے سے ڈرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاں چند اہلکار اس کو گرفتار کرنا چاہتے تھے وہیں ہزاروں کی تعداد میں وہ غریب اس کا استقبال کرنے آتے تھے جن کی وہ مدد کیا کرتا تھا۔ آخرکار وہ گرفتار ہوا اور 17 مارچ 1713ء کو اسے سزائے موت دے دی گئی۔ یوں دو سال میں اس نے ایسے ایسے کارنامے سر انجام دئیے کہ دو صدیاں گذرنے کے باوجود آج بھی اس کے نام کی گونج تاریخ میں سنی جاتی ہے۔ 

 نا کا میورا جیر کیچی نے دوہرے معیار کی زندگی گذاری۔ وہ بیک وقت مزدور اور فائر فائٹر بھی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ راہزنی میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ 18اگست 1831ء میں جب وہ گرفتار ہوا تو اس نے 30 ہزار راؤ کی چوری کا اعتراف کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سمرائی ریاست کے 100 وڈیروں کو بھی لوٹا تھا۔ اسے ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ کر عوام کے سامنے گھسیٹا گیا اور عام لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ ناکا میورا نے اپنی گرفتاری سے قبل اپنی بیوی کے لیے طلاق کے کاغذات پر دستخط کر دئیے تھے تا کہ اس کی وجہ سے اسے کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایسے کردار فلموں میں تو بہت بھلے لگتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ایسی چوریاں اور راہزنیاں شازو نادر ہی ہوتی ہیں۔ سکاوٹی سمتھ سکاوٹی سمتھ 1845ء میں اپنے دعویٰ کے مطابق وہ پرتھ میں پیدا ہوا تھا۔ وہ آسٹریلیا کا سب سے بڑا رسہ گیر تھا۔ وہ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں اور مویشیوں کو چرانے میں کمال مہارت رکھتا تھا اور اس کام کے لیے اس نے جنوبی افریقہ کی سرزمین کو چنا تھا۔ وہ پرتھ کے زمیندار گھرانے کا سپوت تھا جہاں دولت کی ریل پیل تھی لیکن مہم جوئی کے شوق میں اس شریف زادے نے اپنے خاندان کا نام ڈبویا اور رسہ گیری کی تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔ 1877ء میں وہ سرحدی پولیس کے اہلکار کی حیثیت سے جنوبی افریقہ میں داخل ہوا لیکن جلد ہی اس نے نوکری چھوڑی اور گھوڑے اور مویشی چرانا شروع کیے۔ وہ لوٹی ہوئی دولت کو عورتوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرتا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک لوٹا ہوا مال تقسیم نہیں ہو جاتا تھا وہ اپنی پناہ گاہ کا رخ نہ کرتا تھا۔ اس کی دریا دلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ ویسے تو پولیس کے ہتھے نہیں چڑھتا تھا لیکن ایک مرتبہ اس کے دوستوں کو پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور یہ گرفتاری دوستوں کی توسط سے ہوئی اس طرح انعام میں ملنے والی رقم سے اس کے دوستوں نے اپنی اپنی ضرورت پوری کی۔ 

انرک ڈیو ران سپین سے تعلق رکھنے والا انرک ڈیو ران وہا ں کے بینکو ں کے لئے روبن ہڈ بن گیا۔ برطانوی اخبار گار ڈین کی ایک دلچسپ رپورٹ کے مطابق سپین کے اس چالاک شخص نے 2006 سے 2008 تک سپین کے 39 کمرشل بینکوں سے کم و بیش نصف ملین یورو کا قرضہ اس نیت سے لیا کہ کبھی واپس نہیں لوٹائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیوران نے جعلی ٹیلی ویژن کمپنی بنانے کے نام پر یہ قرضہ 68 بار حاصل کیا۔ رپورٹ کے مطابق اس جعلساز کو 2009ء میں گرفتار کیا گیا اور اسے 8 سال سزا ہوئی تاہم وہ دو ماہ تک جیل میں رہا اور اس کے بعد فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔ فرار ہونے کے چند ماہ بعد کسی نا معلوم مقام سے سکائپ کے ذریعے ڈیوران نے جو خطاب کیا وہ بھی دلچسپی سے بھر پور ہے۔ اس نے کہا کہ میں ملک میں موجود سرمایہ دارانہ نظا م کے سخت خلاف ہوں اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہمیشہ سے مخالف ہوں۔ ڈیوران نے کہا کہ اس ملک کا حا ل یہ ہے کہ جب میں نے ایک بار اپنے حقیقی کوائف درج کر کے ایک بینک کو قرض کی درخواست دی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ ڈیوران نے کہا کہ اس کے بعد میں نے مختلف حربوں پر غور شروع کر دیا۔ پھر میں نے جو کیا اس پر مطمئن ہوں۔ میں نے اس رقم کو چند ایسے مقاصد کے لئے خرچ کیا جس کا فائدہ براہ راست ان لوگوں کو ہوا جن کے پاس وسائل نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

ملنگی ملنگی جس کا مشہور ڈائیلاگ یہ تھا ’’دن نوں راج فرنگی داتے رات نوں راج ملنگی دا‘‘ ملنگی ایک ایسا غریب پرور ڈاکو تھا جو رات کے اندھیرے میں امیروں کو لوٹتا تھا اور دن کی روشنی میں یہ لوٹی دولت غرباء میں بانٹ دیا کرتا تھا۔ ملنگی کے کردار کا اندازہ اس مثال سے لگائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک بار ہم گرفتاری سے پہلے جنگل میں ایک محفوظ مقام پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارا ایک ساتھی جو اس وقت قرآن مجید پڑھا رہا تھا، اچانک ہی ہمارے جاسوس نے پولیس کے آنے کی اطلاع دی ہم سب بھاگنے پر تیار ہوگئے۔ ہم اس وقت بھاگ کھڑے ہوتے تو کبھی گرفتار نہ ہوتے لیکن ہمارے اس ساتھی نے کہا کہ میں جب تک قرآن مجید کا یہ پارہ مکمل نہ کرلوں تلاوت چھوڑ نہیں سکتا۔ ایک طرف اس ساتھی کے ساتھ موت اور دوسری جانب زندگی کے لیے فرار ان دو صورتوں میں سے ہمیں کسی ایک کو انتخاب کرنا تھا۔ چنانچہ ہم نے دوست کے ساتھ مرنا گوارا کرلیا کہ جو شخص قرآنِ پاک کی تلاوت کے مقابلے میں اپنی جان کی پروا نہیں کرتا، ایسے دوست پر اپنی جان بھی قربان کردینا چاہیے لہٰذا اسے تنہا چھوڑ کر زندہ رہنا ہمیں کسی طرح منظور نہ ہوا کیونکہ دوستوں کے ساتھ مرنے اور جینے میں کچھ الگ ہی لطف ہے۔

پھولن دیوی پھولن دیوی ہندوستان کی چمبل وادی کی مشہور ڈاکو اور سیاستدان رہی ہیں۔ اترپردیش میں پیدا ہوئیں۔ پھولن دیوی کا شمار 1980ء کی دہائی میں سب سے خطرناک ڈاکوؤں میں ہوتا ہے۔ پھولن دیوی کا باپ ملاح تھا جس کی ایک ایکڑ اراضی پر اس کے بھتیجے نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ پھولن دیوی کا باپ تو اپنے بھتیجے کا کچھ نہیں بگاڑ سکا لیکن پھولن دیوی اسے ہر جگہ چور اور ڈاکو کہہ کر مشہور کرتی رہی۔ پھولن دیوی کی عمر ابھی گیارہ برس تھی کہ اس کی شادی تیس سالہ شخص لال پتی سے کر دی گئی۔ وہ اپنی بیوی پر اتنا ظلم کرتا تھا کہ ایک دفعہ پھولن دیوی کو کئی دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔ کچھ عرصے بعد اس کے خاوند لال پتی نے پھولن دیوی کو چھوڑ دیا۔ پھولن دیوی نے اپنے والدین کے گھر واپس آنے کے بعد دوبارہ اپنے کزن مایا دین کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ وہ تھوڑا با اثر تھا ، اس نے چوری کے الزام پر پھولن دیوی کو جیل بھیج دیا جہاں اس پر تشدد کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ جیل میں پھولن دیوی کے ساتھ بدسلوکی ہوئی۔ 1979ء میں جب اسے جیل سے رہائی ملی تو اسے ڈاکو اغوا کرکے لے گئے۔ ڈاکوؤں کے نرغے میں آنے کے بعد جب ڈاکوؤں کے سردار بابو ٹھاکر نے اس سے زیادتی کی کوشش کی تو اس سے پہلے ہی اس کے دست راست وکرم نے اسے قتل کر دیا اور خود گینگ کا سردار بن گیا۔ پھولن دیوی نے وکرم کی اپنے ساتھ ہمدردی دیکھ کر اس سے شادی کر لی۔ پھولن نے اپنے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لیے مبینہ طور پر اعلی ذات کے 22 ہندو افراد کا قتل کیا۔ پھولن دیوی نے 1983ء میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا اور 1994ء تک وہ جیل میں رہیں۔ 1994ء میں پھولن دیوی نے لوک سبھا کی رکنیت حاصل کی۔ 1998ء میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد اگلے سال ایک بار پھر وہ رکن پارلیمان بنی۔ مشہور ہدایت کار شیکھر کپور نے پھولن دیوی کی زندگی پر مبنی فلم ’’بینڈ یٹ کوین‘‘ بنا کر انہیں ایک لافانی کردار بنا دیا تھا۔ ایک دن پھولن دیوی کو ان کی رہائش گاہ کے سامنے جب وہ اپنی گاڑی سے اتر رہی تھیں، تین نقاب پوشوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
عبدالستار ہاشمی

Post a Comment

0 Comments