Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ابھی فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے

پانامہ لیکس کی ہنگامہ خیزی جاری ہے۔ عمران خان قوم سے پرائیویٹ خطاب کر
چکے ہیں۔ اس سے پہلے وزیراعظم نواز شریف نے بھی اسی قوم سے سرکاری خطاب کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور ان کی پاکستان پیپلزپارٹی اپنے تئیں نواز شریف اور ان کی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ عمران خان استعفیٰ مانگتے ہیں جب کہ پیپلزپارٹی جوڈیشل کمیشن بن جانے پر راضی ہے۔

دیگر سیاسی جماعتیں ایک حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہتیں۔ عین ممکن ہے عمران اگر رائیونڈ میں دھرنا دینے چل پڑیں تو نواز شریف دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر قائل کر لیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے اس لیے وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ پارلیمنٹ کا گذشتہ روز غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہونے والا اجلاس پھر سے بلایا جا سکتا ہے جو غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتا ہے اگرچہ اس بار یہ مشکل لگتا ہے۔ پرویز رشید کہتے ہیں کہ انھوں نے عمران کا پلان ون اور ٹو دیکھ لیا، دھرنا ٹو بھی دیکھ لیں گے۔
ہماری سرزمین بریکنگ نیوز کے لیے جتنی زرخیز ہے غالباً اتفاقات کے لیے بھی اتنی ہی پُرتاثیرہے۔ یہ محض ’’اتفاق‘‘ہی تو تھا کہ حسین نواز نے اچانک نامور اینکرز کو انٹرویو دے ڈالے۔ پھر یہ بھی ’’اتفاق‘‘ ہی ہے کہ ایک دن اچانک پانامہ لیکس سامنے آگئیں اور دنیا کے بیشتر ملکوں میں ہلچل مچ گئی۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم کو گھر جانا پڑا، برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنے ٹیکس ریٹرنز سامنے لانے پڑے جب کہ ان سے استعفے کی ڈیمانڈ ابھی تک جاری ہے۔
یہ بھی ’’اتفاق‘‘ ہی ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود ہمارے وزیراعظم نے اپنے بچوں کی صفائی دینے کے لیے قوم سے خطاب کرنے کو ترجیح دی۔ اور ایسے ہی اتفاقات میں ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اس حلفیہ بیان میں جسے عدلیہ اس بنیاد پر کالعدم قرار دے چکی ہے کہ وہ ان سے دباؤ میں لیا گیا۔ سعید احمد نامی ایک شخص کا نام موجود تھا جو حال مقیم اسٹیٹ بینک اور عہدہ ان کا ڈپٹی گورنر ہے۔

کچھ اتفاقات ایسے ہوئے ہیں جو انسان کو پریشان کر دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار سے جب دباؤ ڈال کر وہ تحریر لی گئی جس میں منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا گیا تھا تو پھر اس میں سعید احمد کا نام شامل کرنا کیوں ضروری تھا۔ مجھے حیرت اس لیے ہوئی کہ سعید احمد نے اسحاق ڈار سے اپنی دیرینہ دوستی کا اعتراف کیا ہے۔ دباؤ میں بھی کہیں کسی دوست کو پھنسانا میر ی سمجھ میں نہیں آیا۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ ممکن ہے وفاقی وزیرخزانہ نے دباؤ کے تحت سعید احمد کا نام اس کالعدم تحریر میں شامل کر لیا ہو اور پھر انھیں خیال آیا ہو کہ اب اس دوست کو ڈپٹی اسٹیٹ بینک کا عہدہ دے کر تلافی کر لی جائے۔ اس سے یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سعید احمد اس عہدے کے اہل نہیں تھے یا نہیں ہیں۔

نواز شریف کو پانامہ لیکس پر قوم سے خطاب کرنا چاہیے تھا یا نہیں، بحث کافی پرانی ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ جب وزیراعظم اپنے بچوں کی جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں کی وضاحت دینے کے لیے خود قوم کے سامنے آگئے تو معاملے میں اور زیادہ جان پڑ گئی۔ حکومت کے لیے بہتر تھا اور اب بھی ہے کہ وہ اس معاملے پر میڈیا سے بات کرنے کے لیے کسی ایک شخص کی ڈیوٹی لگا دے۔ کیونکہ جتنے زیادہ لوگ بات کریں گے اتنی زیادہ باتیں ہوں گی۔ اس کا سارا نقصان حکومت کو ہو گا۔ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ حکومتی صفوں میں پریشانی نہیں ہے تو وہ یقیناً احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ نواز شریف نے ترکی کا دورہ منسوخ کر دیا ہے، اندرون ملک بھی ان کی مصروفیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس سے پہلے وہ دورہ امریکا ملتوی کر چکے ہیں لیکن اس کی وجہ گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والا خوفناک دھماکا تھا۔ پانامہ لیکس کا کرائسز ایسا ہے کہ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک فہرست تو وہ ہے جو سامنے آچکی ہے۔ ایک آنے والی فہرست کی بھی بازگشت ہے جس میں 470 مزید پاکستانیوں کی شمولیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اس آنے والی فہرست نے بھی اشرافیہ کے کئی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہوگا۔ کئی کی نیندیں اڑ چکی ہوں گی۔

نواز شریف اب تک خوش قسمت رہے ہیں۔ 126 دن کے دھرنے کے باوجود وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر نکلے۔ پانامہ لیکس کے آنے سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وزیراعظم یا ان کی حکومت کو دوبارہ کوئی مسئلہ درپیش ہو گا۔ راوی سب چین لکھ رہا تھا۔ ماضی میں عدالتوں سے ریلیف کے مقابلے میں بھی نواز شریف ہی سب سے زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کل پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کاروباری معاملات میں بھی نواز شریف اور ان کے بچوں کو خوش قسمت قرار دیا۔ یہ ہوتا ہے جب قسمت ساتھ دے تو مٹی بھی سونا بن جاتی ہے۔ اعتزاز کے بقول اب تک یہی حالت رہی ہے۔ نواز شریف موجودہ کرائسز سے نکل گئے تو پھر ان کے مخالفین یہ کہیں لکھ لیں کہ وہ اور ان کا خاندان تاحیات اس ملک کے حکمران رہیں گے۔

نوازشریف لکی ہیں تو عمران کی قسمت کے بھی کیا کہنے۔ پی ٹی آئی پے درپے غلطیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہی تھی۔ لوگوں کا اعتماد اس پارٹی پر سے اٹھ رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ پیپلزپارٹی دوبارہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پانامہ لیکس نے کپتان کی سیاست میں پھر سے جان ڈال دی۔ عمران یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر موقع ان کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ ان کا مقابلہ البتہ نوازشریف سے ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ نواز شریف آخر تک ہار نہیں مانتے۔ کپتان کو اگر یقین ہے کہ وہ اس بار میاں صاحب کو گرا لیں گے تو دوسری طرف بھی یہ امید ہو گی کہ ایک بار پھر اس بحران سے نکل آئیں گے۔

کپتان نے اپنے پتے سیدھے کر لیے ہیں۔ پارٹی الیکشن ملتوی کر کے ساری توجہ پانامہ لیکس پر مبذول کر لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس کیا آپشنز ہیں۔ فوری حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قوم سے ایک بار اور خطاب کریں۔ میاں صاحب یہ موقف اختیار کریں کہ ان کی فیملی نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا لیکن چونکہ ان کے بچوں کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا ہے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ فوری الیکشن کرا کے فریش عوامی مینڈیٹ لیا جائے۔

دوسرا ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیں کہ 5سالہ مدت پوری کرنے کے بجائے وہ 4سالہ مدت کے بعد الیکشن کرادیں گے۔ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں وہ البتہ ایسا نہیں کرے گا۔ کپتان نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ رائیونڈ کا ہر صورت گھیراؤ کریں گے۔ اس سسٹم نے چلنا ہے تو پھر ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ اس بار اعلیٰ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بن گیا تو سب مطمئن ہو جائیں گے۔ اتفاقات کا مزید سہارا لیا گیا تو پھر کوئی انہونی بھی ہو سکتی ہے۔

ابھی وقت ہے نواز شریف کوئی فیصلہ کر لیں۔ فیصلے کا اختیار ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ایاز خان

Post a Comment

0 Comments