Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

دولت چھپانے کے طریقے، ایک عمارت میں اٹھارہ ہزار کمپنیاں

پاناما کی قانونی کمپنی موساک فونیسکا کی افشا ہونے والی ہزاروں دستاویزات
سے پتہ چلتا ہے کہ دولت چھپانے کے لیے کس طرح سے ’ٹیکس ہیون‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، اِن انکشافات سے دنیا بھر کی توجہ وسطی امریکی ریاست کی جانب مرکوز ہوگئی ہے۔ پاناما پیپرز کے انکشافات سے پاناما کو یہ تحریک ملی کہ وہ اپنی آف شور کی مالیاتی صنعت میں شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی پینل تشکیل دے۔ لیکن مالی رازداری کی تحقیق کرنے والی عالمی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ سب سے کم مالی شفافیت والے ممالک کی فہرست کے پہلے دس ممالک میں بھی پاناما شامل نہیں ہے۔ امیر یورپی اور شمالی امریکی افراد آسانی سے اپنی دولت یہاں چھپا سکتے ہیں اور اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک پاناما کے تنازعے میں کیوں بہت کم امریکی شہریوں کا نام سامنے آیا ہے۔

مالی رازداری کرنے والے سرفہرست دس ممالک میں سوئٹزرلینڈ، ہانگ کانگ، امریکہ، سنگا پور، لگزمبرگ، لبنان، جرمنی، بحرین، متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ موساک فونیسکا کے شریک بانی رامون فونیسکا نے امیر ممالک پر منافقت کا الزام لگایا ہے۔ خبررساں ادارے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاناما سے زیادہ غلط دولت نیویارک، میامی اور لندن میں موجود ہے۔

لیکن کیا وہ صحیح ہیں؟
بین الاقوامی ٹیکس اور مالی قواعد کا تجزیہ کرنے والے خودمختار ادارے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک نے ایک فہرست ترتیب دی ہے، جس میں مالکوں کی، اُن کے مالی قواعد کی مضبوطی اور لین دین کے حجم کے مطابق درجہ بندی کی گئی ہے۔
اِن دس ممالک کی فہرست میں پاناما شامل نہیں ہے۔ فہرست کے مطابق پہلے نمبر پر سوئزرلینڈ، دوسرے پر ہانگ کانگ، تیسرے پر امریکہ، چوتھے پر سنگاپور، پانچویں نمبر پر کیمن آئس لینڈ، چھٹے پر لکسمبرگ، ساتویں پر لبنان، آٹھویں پر جرمنی، نویں پر بحرین اور دسویں نمبر پر متحدہ عرب امارات کو شامل کیا ہے۔

دہرا معیار
بی بی سی کے نامہ نگار میکس سائٹز نے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کے الیکس کوبھم سے گفتگو کی ہے۔ کوبھم کہتے ہیں کہ ’یہاں دہرے معیار ہیں: کئی ترقی یافتہ ممالک جہاں مالی شفافیت موجود نہیں ہے، قانون نافذ کرنے کے حق کی حمایت یا ذریعہ بنتے ہیں۔‘ بینکاری میں رازداری کے سخت قوانین کی وجہ سے سوئزرلینڈ فہرست میں سب سے اوپر ہے، یہاں تک کے اُس نے عالمی دباؤ کے بعد حال ہی میں بین الاقوامی ٹیکس چوری کی تحقیقات میں سامنے آنے والے اکاؤنٹس یا کھاتوں کے مالکان کی نشاندہی کرنے کی منظوری دی ہے۔ ہانگ کانگ اِس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

پاناما پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کمپنیوں کا ایک تہائی کاروبار ہانگ کانگ اور چین میں قائم دفاتر کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ جس سے کمپنیوں کی بڑی مارکیٹ چین اور کمپنیوں کا سب سے مصروف دفتر ہانگ کانگ کہلاتا ہے۔ ہانگ کانگ میں حامل رقعہ حصص کی خرید و فروخت کی قانونی اجازت موجود ہے، جس سے اُس کے مالک کی نشاندہی کے بغیر رقم یا فنڈ کی منتقلی میں مدد ملتی ہے۔

امریکی دولت
امریکی سرحد کے اندر اور وائٹ ہاؤس سے انتہائی قریب، ڈیلاوئیر کی مشرقی ساحلی ریاست میں تقریباً 945,000 کمپنیاں قائم ہیں۔ جس کے حساب سے وہاں کا ہر رہائشی ایک کمپنی کا مالک ہے۔ ڈیلاوئیر اُن چار امریکی ریاستوں میں شامل ہے (باقی تین ریاستیں نیواڈا، ایریزونا اور ویاؤمنگ ہیں)، جن پر خراب مالی قواعد کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ اور یہاں پر قائم کئی کمپنیوں کے بارے میں شبہات ہیں کہ وہ ’گھوسٹ کمپنیاں‘ ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اِس ریاست کو ’بین الاقوامی جرائم کی پناہ گاہ‘ قرار دیا ہے۔

سمندر پار برطانوی علاقے
سنہ 2008 میں نیو ہمشائر میں ہونے والے ایک مباحثے میں امریکی صدر اوباما نے آگلینڈ ہاؤس کا ذکر کیا تھا، یہ کیمن آئس لینڈ کی ایک عمارت ہے، جس کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہاں 12 ہزار کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ صدر کا کہنا ہے کہ ’ یہ ریکارڈ پر آنے والا سب سے بڑا ٹیکس کا اسکینڈل ہے یا تو سب سے بڑی عمارت ہے۔‘ اِس وقت آگلینڈ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق وہاں 18 ہزار کمپنیوں کے دفاتر رجسٹرڈ ہیں۔ 

کیمن آئس لینڈ سمندر پار برطانوی علاقہ لیکن خود مختار ہے۔ جیسن کوبھم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی انحصار کرنے والے علاقوں کو برطانوی درجہ بندی میں شامل کیا گیا تو برطانیہ فہرست میں سب سے اوپر ہوگا۔ برطانیہ کا ایک اور سمندر پار علاقہ برٹش ورجِن آئس لینڈ بھی پاناما پیپرز میں نمایاں ہے۔ انکشافات میں ملوث کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو پہلے یہاں اور بعد میں پاناما میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔
خامیاں دور کرنے کی کوشش

لیکن پاناما واحد ملک نہیں ہے، جس نے مالی شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔ سنہ 2013 میں جی ایٹ کے اجلاس میں اہم معاشی طاقتوں نے، منی لانڈرنگ میں ملوث افراد، ٹیکس چوروں اور کارپوریٹ ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف نئے اقدامات پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں ممالک سے ’ٹیکس چوری کی لعنت کے خلاف جنگ‘ پر زور دیا گیا تھا۔ لندن سکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والے جیسن ہائیکل کے اندازے کے مطابق ٹیکس ہیون میں دنیا کی کل نجی دولت کا ایک میں سے چھٹا حصہ چھپا ہوا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments