Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

چھوٹو سے چھوٹو گینگ تک کا سفر

'چھوٹو گینگ' کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف قانون نافذ کرنے
والے اداروں نے ایک بڑے آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے. پولیس حکام کے مطابق وہ روجھان میں 3 سے 5 سال تک رکن صوبائی اسمبلی عاطف مزاری کے گارڈ کے طور پر فرائض انجام دے چکا ہے۔

غلام رسول نے پنجاب پولیس کے لیے 2007 تک مخبر کی حیثیت سے کام کیا اور راجن پور اور مظفرگڑھ کے اضلاع میں ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں مختلف گروہوں کی شمولیت کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کرتا رہا.
مقامی افراد اور پولیس کا کہنا ہے کہ چھوٹو، روجھان کے علاقے میں موجود مزاری قبیلے کی بکرانی برادری سے تعلق رکھتا ہے ۔ بعدازاں نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس کے پولیس کے ساتھ اختلافات ہوگئے جس کے بعد اس نے اپنا ایک الگ گروہ بنا کر مجرمانہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔

جس کے بعد روجھان، ڈیرہ غازی خان اور سندھ اور بلوچستان سے منسلک اضلاع میں کام کرنے والے کچھ چھوٹے اور نمایاں گروپوں نے بھی چھوٹو گینگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ 'بلالی جاکھا گینگ' 2 بھائیوں بلال جاکھا اورجگنو جاکھا نے مل کر قائم کیا تھا۔ یہ دونوں راجن پور کے قبیلے گوپانگ میں دو بہنوں کو ہلاک کرنے کے جعلی کیس میں ملوث تھے. کہا یہ جاتا ہے کہ ان خواتین کو ان کے قبیلے نے ہلاک کیا تھا، لیکن اس میں جاکھا برادران کو اس قبیلے سے پرانی دشمنی کی وجہ سے ملوث کر دیا گیا۔
بعدازاں دونوں بھائیوں کو عدالت کی جانب سے قتل کے مقدمے سے بری کردیا گیا، تاہم جیل میں گزارے گئے اپنے وقت کے دوران انہوں نے وہاں موجود مجرموں سے تعلقات بڑھائے اور رہائی کے بعد اپنے 'دشمنوں' کو مار کر چھوٹو گینگ میں شامل ہوگئے۔

جنوبی پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقہ جات میں اشتہاری قرار دیئے گئے مجرم، چھوٹو کے قبضہ کیے ہوئے علاقوں میں پناہ لیتے تھے۔ چھوٹو گینگ کا ایک سابق کارندہ، جس نے گینگ کے ساتھ 1 سال سے زائد کام کیا، کا کہنا تھا کہ دیگر چھوٹے گینگ کراچی، بلوچستان اور رحیم یار خان کے دور دراز علاقوں سے مختلف تاجر اور پیشہ ور ماہرین کو اغوا کرکے چھوٹو کو 4 سے 5 لاکھ روپے میں فروخت کر دیتے اور چھوٹو گینگ ان کی رہائی کے لیے بہت زیادہ تاوان مانگتا۔ پنجاب پولیس اب تک چھوٹو گینگ کے خلاف 6 سے 7 آپریشن کرچکی ہے اور اس کے 30 سے زائد اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ گینگ کے صرف چند ہی بدمعاش مارے گئے.
راجن پور کے علاقے کچی جمال کا ساحلی علاقہ، جس کی آبادی 10،000 افراد پر مشتمل ہے، چھوٹو گینگ کا گڑھ کہلاتا ہے۔ وہاں کے رہائشیوں کا گزر بسر مویشی پال کر اور کھیتی باڑی کے ذریعے ہوتا ہے۔ چھوٹو وہاں کے مقامی افراد کی مدد کرتا ہے اور اس علاقے میں کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیاں نہیں کرتا، لیکن اس نے وہ علاقہ پولیس کے لیے ایک نو-گو ایریا بنا دیا ہے اور وہاں کے مقامی افراد سے چھوٹو کے بارے میں معلومات نکلوانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے 2003-2004 تک اس علاقے کے سربراہ 'بوسان گینگ' کے سرغنہ ظفر بوسان اور طارق بوسان تھے، جن کا بعد میں پولیس نے خاتمہ کر دیا تھا۔

چھوٹو گینگ کے خلاف راجن پور اور رحیم یارخان پولیس کا سب سے بڑا آپریشن 2010 میں کیا گیا تھا، جس کا دورانیہ 3 مہینے تھا، لیکن اس سے کچھ حاصل نہ ہوا جبکہ گینگ کے خلاف آخری آپریشن 2013 میں کیا گیا تھا۔ کچھ سال قبل راجن پور کے علاقے کوٹلہ مغلاں میں ایک آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے مغوی ڈاکٹر کو بازیاب کرواکے ایک گینگسٹر کو ہلاک کیا۔

اس بار مقامی پولیس چھوٹو گینگ کے خلاف بہت احتیاط سے آپریشن کرنا چاہتی تھی اور پورے علاقے میں ناکہ بندی کرکے مختلف چیک پوسٹ اور رکاوٹیں لگا کر آہستہ آہستہ مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) مشتاق سکھیرا بہت جلدی میں تھے۔ پولیس کے ایک اہلکار جو 13 اپریل کو چھوٹو گینگ کی جانب سے حملہ کی گئی کشتی پر موجود تھے، کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس نے آئی جی کے طریقہ کار کی مخالفت کی۔

انہوں نے آئی جی کو بتایا کی چھوٹو گینگ کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے اور صرف فوج ہی ان کا مقابلہ کرسکتی ہے، لیکن آئی جی نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ پنجاب حکومت فوج کو اس معاملے میں شامل نہ کرے کیونکہ یہ پالیسی کے خلاف ہے۔ مذکورہ اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب پولیس نے بغیر کسی منصوبہ بندی اور سوچ بچار کے، گینگ کے خلاف حملہ کرنے سے معذرت کرلی تو آئی جی صاحب نے کہا کہ اگر آپ لوگ نہیں گئے تو وہ خود جا کر ان سے لڑیں گے۔ اس موقع پر علاقائی اور ضلعی پولیس نے اپنے افسران سے عزت بچانے کی التجاء کی ۔

مذکورہ ہلکار نے مزید اضافہ کیا کہ 'دو کشتیوں میں سوار پولیس اہلکار دریا کے دونوں کناروں سے آگے بڑھے۔ پھر ان کشتیوں پر حملہ ہوگیا. ایک کشتی پر گینگسٹرز نے قبضہ کرلیا تھا، جبکہ دوسری کشتی جس پر میں موجود تھا، اس پر فائرنگ کی گئی. جوابی فائرنگ میں پولیس نے 2 گینگسٹرز کو ہلاک کردیا تھا'.
مزید جانیں:راجن پور:گینگسٹرز سے جھڑپیں،25 اہلکار لاپتہ
فائرنگ کے تبادلے کے دوران 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے، بعدازاں اور اہلکار زخموں کی تاب نہ لا کر پسپتال میں چل بسا۔

زمینی آپریشن کی سربراہی اسٹیشن ہاوس آفیسر(ایس ایچ او) کررہے تھے، تاہم ڈی ایس پی، ایس پی، ڈی پی او، آر پی او اور آئی جی سمیت سینییئر حکام بھی وہاں موجود تھے۔ جب چھوٹو کو یہ معلوم ہوا کہ پکڑے گئے پولیس اہلکاروں میں ایک ایس ایچ او بھی موجود ہے، تو اس نے انہیں باقی اہلکاروں سے الگ کیا اور اسی جگہ ہلاک کردیا۔ آئی جی صاحب کی جلد بازی اورناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اب تک پولیس کے7 اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 27 اہلکار اب بھی ان گینگسٹرز کی قید میں موجود ہیں۔

عمران گبول
یہ خبر 16 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

Post a Comment

0 Comments