Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

افغانستان میں امن کی تلاش

سیاسی و سفارتی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ جب ملک کو مختلف سمتوں سے
خطرات لاحق ہوں تو بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور ان مفروضوں اور ترجیحات کو رد کرنا ہوتا ہے جو کسی سازش کے تحت یا ایسے نظریات و سوچ کے نتیجے میں ابھارے جاتے ہیں جو قومی نظریہ حیات سے متصادم ہوتے ہیں‘ تو انہیں سمجھنا اور صحیح فیصلے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

ایسے فیصلے کرتے وقت قومی اقدار اور روایات کو نگاہ میں رکھنا لازم ہے۔ جن مسائل سے آج ہمارا ملک دوچار ہے ان میں افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ کیونکہ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا لیکن بیرونی جارحیت کے سبب پچھلے 53 سالوں سے افغان قوم اپنے نظریا‘ اقدار اور روایات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے اوربے مثال قربانیاں دی ہیں۔ دو سپر پاور اور انکے اتحادیوں کو شکست دی ہے اور اپنے موقف پر ثابت قدم ہے اس حقیقت کو میں باربار دھراتا رہا ہوں تاکہ ہم افغانستان کی جنگ آزادی کو غلط نہ سمجھ بیٹھیں۔ آج سے چودہ سال قبل ملا عمر مرحوم نے جس موقف کا اعلان کیا تھا‘ انکے جانشین آج بھی اس پر قائم ہیں:

٭ ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اورانشاء اللہ ہم فتحیاب ہوں گے۔ جب ہم آزادی حاصل کرلیں گے تو اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے ایسے فیصلے کرینگے جوتمام افغانوں کیلئے قابل قبول ہونگے ‘ اب ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔‘‘

٭ اس بار ہم امریکہ اور پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئینگے جیسا انہوں نے 1989-90 میں روس کی پسپائی کے بعد کیا تھا۔ مستحکم اور پرامن افغانستان کی خاطرہم شمالی اتحاد کیساتھ مل کر قیام امن کی راہیں استوار کرینگے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ دوستی اورتعاون پر مبنی تعلقات قائم کرینگے۔٭ امریکہ کی جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا شراکت دار ہے لیکن اسکے باوجودوہ ہمارا دشمن نہیں ہے۔ پاکستان ہمارے لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہماری سلامتی کے تقاضے اور مفادات مشترک اور ہماری منزل ایک ہے۔
٭ ہمیں مستقبل میں ایک سخت جدوجہد درپیش ہوگی لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اس سے بخیروخوبی عہدہ برآہوں گے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: ’’بالآخر تمہارے دشمن پیٹھ پھیرپھیر کر بھاگ جائینگے۔‘‘

1990ء میں جب سوویت یونین کو شکست ہوئی اور مجاہدین کامیاب ہوئے تو انکو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرنے دیا گیا۔ انہیں انتہا پسند کہہ کر اقتدار سے دور رکھا گیا جسکے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نتیجے میں نوجوان طالب علموں نے ملک کی قیادت سنبھال لی۔ 2001ء تک وہ افغانستان کے 90فیصد علاقوں پر قابض ہو چکے تھے لیکن امریکہ نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کر لیا اور طالبان مخالف قوت ’شمالی اتحاد کا سہارا لیا اور انہیں کابل کے تخت پر بٹھایا۔

 اب امریکہ اور پاکستان طالبان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کو تسلیم کرلو جنہیں وہ غدار اور دشمن کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کامیاب طالبان اس حکومت کو تسلیم کر لیں جسے انہوں نے 2001ء سے اب تک صرف کابل تک محدود رکھا ہے اور جو امریکیوں کے افغانستان سے نکلتے ہی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیگی۔ گذشتہ سال جولائی میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا تو ملا عمر کی جگہ ملا منصور امیر مقرر ہوچکے تھے‘ انہوں نے بھی آج وہی فیصلہ کر لیا ہے جو ملا عمر نے کیا تھا کہ‘‘ جب تک قابض افواج افغانستان سے نکلنے کا حتمی وقت نہیں دیتیں اور عائد پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔‘‘

اگر ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو اس سال کے آخر تک افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا بصورت دیگر ایساممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت ’وقت کی اس نزاکت کو نہیں سمجھ رہی۔ وہ امریکہ کی فرمانبرداری میں طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز طالبان کو دھمکی دی ہے کہ اگر تم مذاکرات کی میز پر نہیں آئے تو تمہارے بال بچے جو پاکستان میں رہتے ہیں وہ سخت مشکل میں پڑ جائینگے۔

 90فیصد طالبان نے اس دھمکی کے بعد تین ہفتوں کے اندر اپنے بیوی بچوں کو پاکستان سے نکال لیا ہے اور تھوڑے افغانی ہی باقی رہ گئے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب کی حکمت عملی سے پاکستان کی طالبان پر دبائو ڈالنے کی رہی سہی صلاحیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ آج پاکستان بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا کہ امریکہ اور نیٹو بے بس ہیں۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے 2001میں امریکہ کے مطالبے پر اسامہ کو اس کے حوالے نہیں کیا اور جنگ مول لے لی لیکن اپنا عہد اور وعدہ نبھایا۔ اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو تحفظ دیا ’ اپنی اقدار کا سودا نہیں کیا۔

فاٹا اور قبائلی علاقوں سے ضرب عضب نے طالبان کا سپورٹ بیس (Support Base) ختم کر دیا تو انہوں نے کابل کے شمال میں نیا سپورٹ بیس بنا لیا ہے۔ اب طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کا کردار اہم نہیں رہا بلکہ پاکستان کی وہ حیثیت ہی ختم ہو گئی ہے جس کی بنا پر طالبان پاکستان کی باتیں مان لیا کرتے تھے۔ وہ مزید جنگ کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیں نقصان ہوگا‘ اگر یہ جنگ جاری رہی تو ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ رہیں گی اور ہماری دو لاکھ فوج واپس نہ آسکے گی۔

اسکے علاوہ وزیرستان سے جانیوالے ساڑھے تین لاکھ مہاجرین جو افغانستان میں موجود ہیں‘ ان کو بھارت اور دشمنوں کی لابی اپنی سازشوں کیلئے استعمال کررہی ہے۔ وہ ہمارے لیے ایک مستقل مصیبت بنے رہیں گے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت افغان طالبان کے مطالبات کو سمجھیں اور کوئی ایسا راستہ نکالیں جس سے مستقبل کی خونریزی سے بچا جا سکے۔ طالبان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ غیروں نے ہم پر جنگ مسلط کی اور ہمیں برباد کیا‘ یہ جنگ ختم کرو‘ ہمیں موقع دو کہ ہم افغان آپس میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور اس متفقہ فیصلے کو آگے بڑھائیں جو دسمبر 2012ء میں ہم نے پیرس میں کیا تھا۔ امن کیلئے واحد راستہ یہی ہے۔

اس وقت ہماری فوج سوات سے لے کر دیر‘ باجوڑ‘ فاٹا‘ وزیرستان اور بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ گویا ملک کے چالیس فیصد علاقے پر فوج کا کنٹرول ہے۔ حکومت نے ان علاقوں میں اپنی رٹ قائم نہیں کی ہے۔ ایسے وقت میں جب افغانستان میں امریکہ اور نیٹو جنگ ہار چکے ہیں اور انکو یہاں سے نکلنے کا راستہ درکار ہے تو پاکستان سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے لیکن پاکستان کو بھی اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے غلط فہمی ہے اور امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو بھی غلط فہمی ہے۔

 جبکہ حقیقت یہ کہ ہے کہ جوکام ہم امریکہ کے کہنے پر کر رہے ہیں وہ قانون فطرت کے تقاضوں کیخلاف ہے۔ چارملکی اتحاد جس میں چین‘ پاکستان ‘ امریکہ اور افغان حکومت شامل ہیں ‘ اس میں سے تین نے یعنی امریکہ‘ پاکستان اور افغان حکومت نے طالبان کیخلاف جنگ کی اور ہار گئے ہیں۔ قانون فطرت یہ ہے کہ جیتی ہوئی طاقت فیصلہ کرتی ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانیوں نے ہی کرنا ہے‘ جن کے بزرگوں نے ماضی میں سوویت یونین کو شکست دی اور اب امریکہ اور نیٹو کوطالبان نے شکست سے دوچار کیا ہے۔

 امریکہ ’ نیٹو اور پاکستان تسلیم کر لیں کہ وہ اس جنگ میں ہاری ہوئی طاقت ہیں اور انہیں افغانستان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کاحق نہیں ہے۔ صرف معاونت‘ مدد اور افغانستان کی تعمیر نو کا حق حاصل ہے۔ اگر افغان طالبان ملک میں قیام امن کی راہوں کا تعین کرینگے تب ہی پائیدار امن قائم ہو گا۔

جنرل مرزا اسلم بیگ

Post a Comment

0 Comments