Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

آسکر، کسی بھی قیمت پر؟

فرانس میں پہلے سرکاری، پھر نجی اداروں میں بھی حجاب کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ باحجاب مسلمان خواتین کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسکارف اتار پھینکیں، ورنہ حجاب کی قیمت چکانے، اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ مگر سلام ہے ان خواتین پر جنھوں نے بے روزگاری قبول کر لی، مگر حجاب ترک کرنے سے انکار کر دیا۔ فرانس کی حکومت نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بھی بچیوں کے اسکارف پہنے پر 
ممانعت کر دی۔

وہاں خواتین کے ہیومن رائٹس کو سرعام پامال کیا جاتا رہا، مگر کسی کو ان مظلوم مسلم خواتین کی بے چارگی پر رحم نہ آیا، کوئی ان کی آزادی رائے، اپنی زندگی کے فیصلے کرنے، مرضی کے لباس پہننے کے بنیادی حق دلانے کے لیے ان پر ڈاکومنٹری فلم بنانے فرانس نہ پہنچا۔ کسی نے اس بدصورت سچ کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہ کی۔ مغرب اور مغرب زدہ ذہنوں کا بھی عجیب دہرا معیار ہے، جو خواتین حجاب اتار پھینک کر بے پردہ ہونا چاہتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے علمبردار ان کی حمایت میں ’’وومن آف ہولی کنگ ڈم‘‘ جیسی ڈاکومنٹری بنانے میں دیر نہیں کرتے، لیکن جو حجاب کرنا چاہتی ہوں۔

ان کے انسانی حقوق غصب کرنے، ان پر پابندیاں لگانے اور زندگی ان پر تنگ کرنے کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کرتا، ان کی دادرسی کے لیے کوئی نہیں پہنچتا۔ دو دفعہ کی آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین چنائے کینیڈا کی شہری ہیں۔ وہ پہلے Stanford University امریکا میں تعلیم حاصل کرتی رہیں اور پھر 2004ء سے 2015ء تک ٹورنٹو میں ہی مقیم رہیں۔ چند ماہ قبل ہی دوبارہ پاکستان آنے کے خیال سے واپس پلٹیں۔ کینیڈا میں اپنے قیام کے دوران وہ کبھی کبھی کسی چونکا دینے والی اسٹوری کی تلاش میں پاکستان آتیں، اس پر ڈاکومنٹری فلم بناتیں جس کے ذریعے ان کے آسکر تک پہنچنے کے امکانات روشن ہو سکتے۔
وہ اقرار کرتی ہیں کہ کینیڈا کا ان کی سوچ اور کام پر بہت influence رہا ہے۔ 

کہتی ہیں کہ ’’میں نے ہمیشہ کینیڈا کے ہیومن رائٹس کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا ہے، ان سے متاثر ہوں۔‘‘ مگر حیرت ہے، انھیں وہاں جہاں وہ رہتی ہیں اور اپنے اردگرد مغربی ممالک میں عورتوں کے پامال ہوتے حقوق دکھائی نہ دیے۔ اس مہذب، ترقی یافتہ معاشرے میں جہاں خواتین کی عصمت دری کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں خواتین میں خودکشی کا رجحان خطرناک حد تک پایا جاتا ہے۔
ان ممالک میں عورت کی مظلومیت کا کیا عالم ہے، کیا کبھی کسی نے اس کڑوے سچ کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی، جہاں کمسن ماؤں کو اپنے بچے کی ولدیت تک معلوم نہیں ہوتی، جہاں مجبوراً داخلہ فارم سے باپ کے نام کا خانہ نکالنا پڑا، کیونکہ وہاں اکثریت اپنے باپ کے نام سے ناواقف ہے، جہاں اب صرف ماں کے نام سے ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ کوئی مغربی عورت کی اس مظلومیت پر ڈاکومنٹری فلم نہیں بناتا، کیونکہ سب جانتے ہیں ایسے موضوعات کی فلمیں جو وہاں کے آقاؤں کو سوٹ نہ کرتی ہوں، منظرعام پر آنے سے پہلے ہی ڈسٹ بن کی نذر کر دی جاتی ہیں۔

شرمین نے 2002ء سے ڈاکومنٹری فلمیں بنانے کا آغاز کیا اور اب تک بیس فلمیں بنا چکی ہیں، جن میں ’وومن آف ہولی کنگ ڈم، سٹی آف گلٹ، افغانستان انویلڈ، ایراق دی لوسٹ جنریشن، ہائی وے آف ٹیرز، ٹرانس جینڈر پاکستان اوپن سیکرٹس جیسی مختلف ممالک کے حوالے سے بنائی جانیوالی فلمیں شامل ہیں، مگر انھیں کسی پر آسکر نہ ملا، اگر ملا تو 2012ء میں پاکستانی معاشرے کا چہرہ مسخ کرنے والی فلم پر، جس کا موضوع دنیا میں پاکستان کا منفی چہرہ پیش کرنے کے لیے بہت مددگار تھا۔ آسکر کا میلہ ہر سال سجانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ پوری دنیا تک اپنی مرضی کے پیغامات غیر محسوس طریقے سے، مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے پہنچائے جائیں۔ آسکر دے کر کسی مخصوص فلم کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے اخبارات، میڈیا، ایک ایک شخص اس ایوارڈ وننگ فلم کے بارے میں بات کرتا ہے، اسے دیکھتا ہے، اس طرح ایک خاص پیغام، تاثر تفریح کی آڑ میں بہت تیزی سے دنیا کے کونے کونے میں ہر شخص تک پہنچ جاتا ہے۔ 2012ء سے 2015ء کے دوران شرمین نے دیگر ممالک کے حوالے سے مزید ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنائیں لیکن آسکر جیوری کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں، مگر 2016ء میں ایک بار پھر ان کی پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانیوالی فلم ہی کو دوسری بار بھی آسکر سے نوازا گیا۔ یہ دور میڈیا کے ذریعے جنگ جیتنے کا دور ہے، اب روایتی جنگ کے بجائے میڈیا کے ذریعے جنگیں لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ 

میڈیا کے ذریعے اب نہ صرف اپنی بلکہ دشمن ملک کے عوام کی ہمدردی و خیر خواہی بھی حاصل کی جا سکتی ہے، رائے عامہ کو اپنے حق میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اسی میڈیا وار فیئر کا ایک زبردست ہتھیار سالانہ آسکر ایوارڈ کا پلیٹ فارم ہے۔

جس میں بڑی منصوبہ بندی سے انتخاب کی گئی کمرشل فلموں، ڈاکو منٹری فلموں کے ذریعے اپنی مرضی کا تاثر و پیغام دنیا تک پہنچا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اس سال کی بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ فلم ’’Spotlight‘‘ کو دیا گیا۔ اس فلم کا موضوع کیتھولک چرچوں کے Priests کی نازیبا، غیر اخلاقی حرکات، کردار کو بے نقاب کرنا ہے۔ یعنی ان کے دینی پیشواؤں کے قابل اعتراض کردار کو دنیا کے سامنے کھول کر عیسائیوں کو مذہبی رہنماؤں سے بددل کرنا ہے۔ مقصد جس سے لوگوں کی نظروں میں مذہبی رہنماؤں کی عزت کو داغدار کرنا ہے، انھیں مذہب سے متنفر کر کے مزید دور کرنا ہے۔

کیوں؟ اس لیے کہ مذہب انسان کو انسانیت کا، مظلوموں کی مدد کرنے کا، دوسروں کے حق غصب نہ کرنے کا، ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے۔ چنانچہ اس فلم کے ذریعے بڑی مہارت و غیر محسوس انداز سے لوگوں کو لاشعوری طور پر دین سے مزید دور کرنے کی کوشش و منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بیسٹ پکچر ایوارڈ ملنے کے بعد پوری دنیا اس فلم کی جانب متوجہ ہو گئی اور اب کروڑوں لوگ اسے دیکھیں گے بھی اور کسی نہ کسی حد تک اس کے تاثر کے زیر اثر بھی آئیں گے۔

اس طرح اس فلم کو آسکر دینے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ آسکر ایوارڈ کے لیے دیے جانے والے ہر فیصلے کے پیچھے اسی طرح کی نپی تلی حکمت عملی اور مقصد ہوتا ہے، جس سے دنیا تک کوئی خاص تاثر پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے، وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی بھی پلیٹ فارم اور موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمیں اس حساس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ جانے یا انجانے میں ان دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں، فقط معمولی سے تمغے اور وقتی شہرت کے لیے لاعلمی میں بیدردی سے اسی شاخ کو کاٹنے لگتے ہیں جس پر ان کا آشیانہ ہوتا ہے۔

نعیم شاہ

Post a Comment

0 Comments