Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب، کفایت شعاری یا معاشی پالیسی کی تبدیلی؟

عام خیال یہی ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حالیہ سعودی اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کر رہی ہے، مگر میرا خیال اس سے مختلف ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سعودی حکومت کی یہ پالیسی عارضی ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتوں کا رد عمل ہے، لیکن جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کفایت شعاری نہیں بلکہ اصلاحی اقدامات ہیں۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ معیشت کو کسی ایک شعبہ کا مرہون منّت رکھنے کے بجائے مختلف النوع بنایا جائے ورنہ سعودی عرب چند سال کے عرصہ میں غربت میں مبتلا ہو جائے گا۔

برطانیہ میں ایک کار کی ٹنکی پیٹرول سے بھرنے پر ۱۰۰ امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں مگر سعودی عرب میں صرف ۱۰ ڈالر۔ تاہم مسئلہ قیمت کا نہیں بلکہ لوگوں کی آمدنی کا ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پر ملکی معیشت کو ترقی دینا لازمی ہے تاکہ صرف حکومت نہیں بلکہ پورا ملک ترقی کرے اور لوگ ریاست کی مدد کے بغیر بنیادی ضرورت کی اشیا خرید سکیں۔

سیاستدانوں کے لئے سبسڈی دینا اور بے روزگاروں کو ملازمتیں دینا بہت آسان ہے، لیکن اس سے معیشت کو خود کفیل نہیں بنایا جاسکتا۔ قیمتوں کی اصلاح اس لئے ضروری ہے کہ حکومت پر سے سبسڈیز کا بھاری بوجھ کم کیا جاسکے۔ یہاں اہم ترین چیز یہ ہے کہ ایسے اقدامات معیشت کے فلسفے اور چلن کو تبدیل کرنے کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر سبسڈیز گھٹانے کے نتیجے میں قیمتیں بڑھ جائیں تو بہت سے لوگوں کو ایسی صورتحال قبول کرنے میں کوئی تامّل نہیں ہوگا بشرطیکہ یہ حقیقی اقتصادی اور ترقیاتی اصلاح کے طور پر کیا جائے۔ سعودی حکومت در اصل یہی وعدہ کر رہی ہے۔

ضروری اقدامات

یہ کام پیچیدہ ہے اور بہت سے اقدامات کا متقاضی ہے جن میں تعلیم کی اصلاح، تربیت، غیر متحرّک پڑے ہوے بینک انوسٹمنٹ کے سود میں تبدیلی، جدید مینجمنٹ کے تصورات سے آشنائی، صنعتوں کے حلیے میں تبدیلی، عورتوں کی خاندان کی آمدنی میں اضافے کے لیے کام کرنے کی حوصلہ افزائی، دوسروں پر انحصار کرنے کے سماجی رویے کی شدت سے حوصلی شکنی، سرکاری اداروں کا محاسبہ، اور ایسا جامع پروگرام بنانا جو یر سطح پر کرپشن سے جنگ کرے۔

ایسی خواہشات کی فہرست بہت طویل ہے مگر اس پر عمل درآمد نا ممکن نہیں ہے کیونکہ جب ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا تو ان تمام لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا جو عالمی منڈی کی قیمتوں کے مطابق پیٹرول خریدیں گے۔ چالیس سال سے رائج طرز حکمرانی کی اصلاح کے لئے ایک مشکل قدم اٹھایا گیا ہے۔ دولت کی فراوانی کی وجہ سے ۱۹۷۰ سے ریاستی سبسڈیز کے تصور کی حمایت کی جاتی رہی ہے مگر اس دوران سعودی آبادی ۸۰ لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی کروڑ ہو گئی ہے جن میں چالیس لاکھ غیرملکی کارکن بھی شامل ہیں۔

اقتصادی اصلاحات اور محفوظ مستقبل کی خاطر کام کرنا خود عوام کے مفاد میں ہے۔ قیمتوں کی اصلاح اس سلسلے کا پہلا بنیادی قدم ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ تیل کی آمدنی مسلسل کم ہو رہی ہے اور آبادی بڑھتی جا رہی ہے، دوسری جانب دنیا بھر میں معیار زندگی بلند ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا بڑھتے ہوئے معاشی خسارے کو سرکاری امداد، قرضوں اور کفایت شعاری کے اقدامات کے ذریعے پورا کرنا عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس صورتحال کا بہترین حل یہ ہے کہ لوگوں کی صلاحیتوں اور ملک کی پیداواری قابلیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ سعودی شہری بھی ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کے ہم پلّہ ہو سکیں۔

عبدالرحمان الراشد

Post a Comment

0 Comments