Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہاں ! بیروزگاری کاخاتمہ ہوسکتا ہے

بیروزگاری ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ بیس کروڑ کی آبادی میں 65% نوجوان ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان ہیں ۔ ان میں ذہانت ہے، قوّت ہے، صلاحیتیں ہیں مگروہ نوکری اور روزگارسے محروم ہیں، پبلک سیکٹر صرف چند ہزاراسامیاں تخلیق کرسکتا ہے ۔

ملکی معیشت اتنی توانا نہیں اور اس میں اتنی وسعت نہیں کہ کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے اور سب کو روزگار فراہم کر دے۔ بیروز گاری کے مسئلے پر کتنے ہی اجلاس اور سیمینار منعقد کر لیے جائیں اور کتنی ہی تقریریں کر لی جائیں کوئی دوسرا طریقہ نہیں ڈھونڈا جاسکتا ۔۔اس پر قابو پانے کا ایک ہی حل ہے۔

نوجوانوں کو فنّی تربیّت فراہم کرکے انھیں ہنر مند بنادیا جائے۔ ہنرمند کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔ یورپی ممالک نے برسوں پہلے یہ حل ڈھونڈ لیا تھا اس لیے وہ معاشی تر قّی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ ہم نے اسے نظر انداز کیے رکھا اس لیے بہت پیچھے رہ گئے۔

کئی دھائیوں تک یہ اہم ترین شعبہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور غلط ترجیحات کے باعث ملک بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ 1997-98 میں پنجاب حکومت نے سب سے پہلے اس کا ادراک کیا اور ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی  کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں آیا۔

دیکھا دیکھی دوسرے صوبوں میں بھی اس جانب توجہ مبذول ہونا شروع ہوئی، پھر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ فنّی تعلیم و تربیّت کے اہم ترین شعبے میں پالیسی سازی،  کے لیے مرکزی سطح پر ادارہ ہونا چاہیے لہذاء نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کا وجود عمل میں آیا ۔ کامران لاشاری ،امجد علی خان ( چیف سیکریٹری خیبر پختونخواہ ) ،سجاد سلیم ھوتیانہ (سابق چیف سیکریٹری سندھ ) اور کئی دیگر سول سرونٹس اس کے سربراہ رہے ہیں۔
اس سال پولیس سروس سے ریٹائرہوا تو پرائم منسٹر صاحب نے بلا کرکہا کہ ’’حکومت آپ کی صلاحیتّوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ‘‘ اس ضمن میں ناچیز کو نیکٹا کی سربراہی سمیت مختلف عہدوں کی پیشکش ہوئی جو ناچیز نے قبول کرنے سے اس لیے معذرت کی کہ میں دیانتداری سے سمجھتا تھا کہ وہاں آزادی سے کوئی کردار ادا نہیں کر سکوں گا۔ نوکری کبھی بھی میرا مسئلہ نہیں رہی۔ مگر جب اس سال اگست کے آخر میں کہا گیا کہ ’’آپ نیوٹیک کی ذمے داری سنبھال لیں‘‘  تو میں نے دوستوں سے مشورے کے بعد حامی بھر لی کیونکہ اس میں نوجوانوں کو ہنرمند بناکر انھیں روزگار فراہم کرنے اور ملکی ترقّی میں حصہ ڈالنے کے مواقعے نظرآئے۔

ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں نوجوان بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے چکر کاٹنا اور اخباری اشتہارات چاٹنا  شروع کردیتے ہیں مگر ہر طرف سے انھیں مایوس کن جواب ملتا ہے کیونکہ کاغذ کی اس دستاویز کی نہ کوئی اہمیّت ہے اور نہ مانگ۔ اتنے بڑے  کو اگر ہم فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے پاس سونے اور تیل سے کہیں بڑا سرمایہ ہے۔ اوراگرانھیں وہ ہنر فراہم نہ کرسکے جو انھیں روزگار کمانے کے قابل بنادے، تو بیکاری اور فرسٹریشن انھیںجرائم یا دہشت گردی کی طرف دھکیل دے گی۔

ہمارے ہا ں ٹیکنیکل اور ووکیشنل شعبے کی طرف بالکل توجہ نہیں رہی۔ پنجاب میں لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی  ایک اچھا ادارہ ہے مگر یہ انجینئر تو پیدا کررہا ہے ٹیکنیشن نہیں بنارہا۔ ٹیکنالوجی کا شعبہ غیر فعال ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں منڈی بہاؤالدین کے رسول کالج اور سویڈش کالج گجرات کے بعد کوئی اعلیٰ پائے کا ادارہ قائم نہیں ہوسکا۔ سندھ اور کراچی میں بھی اچھے ادارے پرائیویٹ سیکٹر میںہی قائم ہوئے ہیں۔

اس کے برعکس ترقی کی دوڑمیں ایشیاء اور افریقہ سے آگے نکل جانے والے ملکوں نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر اپنے نوجوانوں کو بی اے ایم اے کی طرف نہیںدھکیلا ۔ انھوں نے کی طرف فوکس کیا میٹرک میں اعلیٰ گریڈز لینے والے بچوں کو ہی یونیورسٹی تعلیم کی طرف جانے دیا جاتا ہے۔

دوسروں کو فنّی اور ووکیشنل تعلیم و تربیت کے اداروں میں بھیجاجاتا ہے، جہاں ان کا بیس فیصد وقت کلاس روم میں اور 80 فیصد فیکٹری میں عملی تربیت حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ یہ سب کچھ صنعتی شعبے کی موجودگی یا نگرانی میں ہوتا ہے اس لیے تربیّت مکمل کرنے والے نوجوان کا روزگار یا یقینی ہوتی ہے۔ چین نے اعلیٰ پائے کے ٹیکنیکل ادارے قائم کرلیے ہیں۔ کوریانے انجنیئرنگ یونیورسٹیا ں قائم کرنا بند کردی ہیں صرف ٹیکنیکل ٹریننگ کے ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔

یورپ ہی نہیں ایشیا اور پیسیفک کے ممالک بھی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل  ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ  کے شعبے میں بہت آگے نکل گئے ہیں اور ترقی یا فتہ ممالک کو چھورہے ہیں ۔ فلپائن نے میزبانی کے شعبے پر خاص  توجہ دیکر بڑی مہارت حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ اب یورپ کے ریستورانوں میں بھی فرنٹ ڈیسک ، ریسپشن اور طعام گاہوں میں کھانا سرو کرنے والے زیادہ تر فلپینی نوجوان نظر آتے ہیں۔سری لنکا بھی اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ناچیز نے میدان میں اتر کر دیکھا تو بہت کام رفو کا نکلا۔ عرب ممالک میں تعینات سفارتکاروں نے بتایا کہ کہ مڈل ایسٹ میں پاکستان کا محنتی اور جفا کش مزدور جتنی تنخوا ہ لیتا ہے فلپائن یا سری لنکا کے مزدورکا معاو ضہ اُس سے تین چار گنا زیادہ ہے کیونکہ پاکستانی مزدور بے ہنر  ہے اور فِلپینی یا سری لنکن ہنر سیکھ کرآ تا ہے۔

صنعت کا ہر سیکٹر غیر ہنرمند لیبر فورس کا رونا رو رہا ہے۔ پیداواری صلاحیّت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے۔زراعت ،تعمیرات،سولر انرجی، صحت، آئی ٹی سے لے کر بیوٹیشن اور کُکنگ تک۔ مقابلے کے اس دور میں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے توفنّی تربیّت کے بغیرممکن ہی نہیں۔ ٹیکنیکل اسکل یعنی ہنر ہی وہ کنجی  ہے جو کسی بھی فرد کے لیے امکانات کے لاتعداد دروازے کھول دیتی ہے۔

ہمارے ملک میں مشکلات اور چیلنجز کم نہیں ہیں۔  بہت سے علاقے پسماندہ ہیں جہاں تیکنیکی تربیّت کے مواقع ناپید ہیں۔ معیار اور موزونیت پر توجہ نہیں رہی، زیادہ تر اداروں میں جو تربیّت دی جاتی رہی ہے اس کی ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب نہیں۔ تربیّتی اداروں اور آجر میں باہمی ربط کا فقدان ہے۔
تربیتّی ادارے اپنی سہولت اور وسائل کے مطابق تربیّت فراہم کرتے ہیں اس سلسلے میں انڈسٹریل سیکٹر کو اعتماد میں نہیں لیتے جب کہ یورپ،چین اور جاپان میں ہنرکے انتخاب سے لے کرسیلبس کی تیاری، عملی ٹریننگ اور  تک ہر مرحلے پر صنعتی شعبہ عملی طور پر حصے دار ہوتا ہے اسی لیے تربیّت مکمّل کرنے والوں کو متعلقہ صنعت فوراً اچک لیتی ہے اور بڑی خوشی سے اپنے ہاں روزگار فراہم کرتی ہے۔

پچھلے تین مہینوں میں انھی امور کی جانب توجہ دی گئی ہے، وزیرِ اعظم خود چاہتے ہیں کہ ہر سال ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوانوں کو ٹریننگ فراہم کی جائے ۔ تربیّت کے لیے اب بہترین  اداروں کا انتخاب کیا جارہا ہے کس ہنر میں تربیّت دینی ہے اس کا فیصلہ ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی طلب کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہا ہے یعنی کا آغاز کردیا گیا ہے۔

تربیّت کا معیار بلند کرنے اور اسے بین الاقوامی سطح تک لانے کے لیے عالمی  سطح کے سیلبس سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ تربیّت کے پرانے اور دقیانوسی طریقے سے ہٹ کر  متعارف کرائی جارہی ہے۔ سیکٹر میں عالمی سطح کے جانے اور پہچانے جانے والے سٹی اینڈ گلڈز جیسے اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل شروع کردیا گیا ہے۔ غیر ملکی ماہرین کی ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ سسٹم میں اصلاحات لائی جارہی ہیں، تربیّت کو جانچنے اور نیوٹیک کے سرٹیفیکیٹ کا معیا ر اور اعتبار قائم کرنا ایک اہم ہدف ہے۔

اور نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے  قائم کیے جارہے ہیں۔ انڈسٹری کے ساتھ باہمی رابطہ استوار کرنے کے لیے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں، اس سلسلے میں کراچی اور لاہور میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے عنوان سے دو بڑے سیمینار منعقد ہوچکے ہیں جس میں انڈسٹری کے نمائیندوں نے بڑی تعداد میں اور بڑے جوش و خروش سے شرکت کی۔ سیکٹر سکل کونسلز قائم کی جارہی ہیں، اگلے ماہ منعقد کیے جائیں گے۔

فروری اور مارچ میں تمام صوبائی دارلحکومتوں اور صنعتی شہروں میں  کا انعقاد ہوگاجس میں نوجوانوں، تربیت فراہم کرنے والے اداروں، صنعتکاروں اور آجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے گا، جہاں ہنر سیکھنے کے بارے میں نوجوانوں کی رہنمائی بھی کی جائے گی اور تربیّت یافتہ نوجوانوں کی اہلیّت اور صلاحیّت کو دیکھ کر صنعتکار انھیں وہیں بھی آفرکریں گے۔
ہنرمندی کا راستہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچائے گا۔ اس منزل کے حصول کے لیے نیوٹیک خلوص اور لگن کے ساتھ ایک رہنما اور مددگار کا کردار ادا کرے گا۔

ذوالفقار احمد چیمہ

Post a Comment

0 Comments