Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بسمہ کی موت، قوم کے لیے لمحۂ فکریہ

کراچی میں دس ماہ کی بچی بسمہ کی موت کے بعد تو جیسے پاکستانی میڈیا میں ایک بھونچال آ گیا۔ آنا بھی چاہیے تھا۔ ہر کسی نے دل کھول کر سیاست دانوں اور وی آئی پی کلچر پر تنقید کی۔
لوگوں کے غم و غصے کا اظہار بخوبی اس ایک ٹویٹ سے بھی ہوتا ہے: ’کیا ہوا اگر بسمہ مر گئی، بھٹو تو زندہ ہے۔

یہ اشتعال پاکستان پیپلز پارٹی کے اس نعرے پر ضرب لگاتا ہے جو وہ اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف دفاع کے لیے دہائیوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس غم و غصے کا کوئی اثر بھی ہوگا؟
کراچی کے سول ہسپتال کے باہر اس واقعے نے پانچ سال قبل کوئٹہ کے سول ہسپتال کی یاد دلا دی۔ فروری 2010 میں اس وقت کے صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی بلوچستان کے دارالحکومت میں آمد ہوئی۔ پرانی روایت کے مطابق وہی آگے پیچھے درجنوں گاڑیاں پر مشتمل طویل قافلہ شہر میں سے گزرا تو معمول کی ٹریفک درہم برہم ہوگئی۔ اس میں شاید محض آٹھ دس سکیورٹی والوں کی گاڑیاں ہوں گی جبکہ باقی یقینًا مقامی خوشامدی ہوں گے۔
ٹریفک میں پھنسی ایک عورت نے آٹو رکشہ ہی میں بچہ جنم دے دیا۔ اس کے بھائی محمد یاسین نے میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے پولیس کی بہت منت سماجت کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ ان کا جواب تھا کہ انھیں کسی کو بھی گزرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

ہوبہو یہی حال سکیورٹی والوں نے بسمہ کے والدین کا بھی کیا۔ کوئٹہ میں تو خوش قسمتی سے کسی کی جان نہیں گئی لیکن کراچی میں تو سانس لینے میں مشکل میں پھنسی بیچاری بسمہ اپنی مختصر زندگی کے دس ماہ بھی مکمل نہ کر سکی۔

بلاول بھٹو زرداری ہسپتال میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور دیگر اعلی حکام کی معیت میں نئے ٹراما سینٹر کے افتتاح کے لیے موجود تھے۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے والد فیصل بلوچ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر بچی کو دس منٹ قبل لے آتے تو شاید وہ بچ جاتی۔ 
ٹوئٹر اور نیوز چینلوں نے اس پر خوب تنقید کی۔ بسمہ کے علاوہ وی آئی پی کلچر اور ریسٹ ان پیس ڈیموکریسی کے عنوان سے ٹویٹس کے کئی سلسلے شروع ہو گئے۔

بلاول بھٹو نے تنقید کا ٹوئٹر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ انھیں بسمہ کی موت پر دکھ ہوا ہے۔ ’میں ذاتی طور پر اس دلخراش واقعے کی تحقیق کر رہا ہوں کہ کیا غلط ہوا۔ 

تفتیش کوئٹہ کے واقعے کا بھی صوبائی حکومت نے حکم دیا تھا۔ لیکن رات گئی بات گئی۔ نہ میڈیا نے پوچھا نہ حکومت نے کچھ بتایا۔ اس سے حکمرانوں کی نااہلی ہی ثابت ہوتی ہے۔ وہ اگر تحقیقات کی بھی اسی طرح تشہیر کرواتے جس طرح تنقید کی ہو رہی ہے تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔
نتیجہ جو بھی ہو یہ الیٹ کلاس کے وی آئی پی کلچر کو بار بار زیر بحث ضرور لاتا ہے۔

مخالف سیاسی جماعتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی رہتی ہیں، لیکن جب خود اقتدار میں آتی ہیں تو سب بھول جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کی رہنما ناز بلوچ نے بسمہ کے والد سے ملاقات کے بعد ٹویٹ کیا کہ انھوں نے سندھ حکومت کی جانب سے ملازمت کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے لیاری کے جنرل ہسپتال کی حالت بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

شاید یہی منصفانہ مطالبہ حکمرانوں کو سمجھ آ جائے۔ بسمہ کا تعلق لیاری سے ہونا اسے پیپلز پارٹی کے لیے مزید افسوس ناک بناتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑا المیہ کیا ہوگا کہ پی پی پی کے گڑھ کے لوگوں کا یہ حال ہے۔
وی آئی پی کلچر پر ایک مرتبہ پھر وار ہو رہے ہیں۔ اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا یا ہمیں دوبارہ کسی کالی بلی کے راستہ کاٹنے، معاف کیجیے گا، میرا مطلب تھا سیاہ گاڑی کے گزرنے سے کسی کی ہلاکت یا پیدائش کا انتظار کرنا پڑے گا؟

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments