Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اسرائیل' میں کیا جنگل کا قانون رائج ہے؟

اسرائیلیوں کی ایک خام خیالی یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جیسی پالیسیاں بھی روا رکھی جائیں اسرائیلی جمہوریت اس سے متاثر نہیں ہوتی اور مستحکم ہی رہتی ہے۔ دیگر خام خیالیوں کی طرح اس میں بھی کچھ نہ کچھ سچ ہے مگر وہ بہت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ خواہ اسرائیلی معاشرہ جمہوری خوشحالی سے فیض یاب ہوتا رہے مگر وہ مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضہ اور غزہ کی غذائی اور ادویہ کی ناکہ بندی جیسے غیر جمہوری اور ظالمانہ اقدامات کو ذرا بھی جواز فراہم نہیں کر سکے گا۔ یہ خوش گمانی بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی پامالیوں سے مزید داغدار ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل کی کثیر قومی معاشرتی اقدار کی مستقل اور پریشان کن تباہی کی نشاندہی کرتی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہراسان کرنے کا سلسلہ، خواہ نامعقول قانون سازی کے ذریعے ہو، یا پولیس اور فوج کی بڑھتی ہوئی زیادتیوں سے، یا سیاستدانوں کی زہر خند زبان کی وجہ سے، یہ اکا دکا واقعات سے بڑھ کر اب اسرائیلی معاشرہ کی ایک مستقل شناخت بن چکا ہے۔

 اسرائیلی فوجیوں کی تنظیم 'بریکنگ دی سائیلنس' (خاموشی توڑنا) جو ایسے فوجیوں پر مشتمل ہے جو سنہ ۲۰۰۰ میں فلسطینیوں کے دوسرے انتفاضہ کو کچلنے کی کارروائیوں میں شامل تھے اور اب اسرائلی فوج کے فلسطینیوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کرتے ہیں، کو حال ہی میں پولیس کے مبینہ پر تشدد سلوک اور سیاستدانوں کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

حقیقت عیاں ہو گئی

گذشتہ ایک دہائی سے بریکنگ دی سائیلنس تن تنہا ہی اسرائیلی عوام کے سامنے ان کی فوج اور حکومت کے وہ مظالم عیاں کرتی رہی ہے جو مقبوضہ علاقوں میں عرب عوام کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں۔ اس کی اولین ترجیح فوجیوں کو روزمرّہ کی بنیاد پر فلسطینی عوام کو قابو کرنے اور ان پر ظلم وستم ڈھانے کے لئے دیے جانے والے ٹاسک اور اسرائیلی معاشرے اور خود فوجیوں پر اس سے پڑنے والے اثرات پر عوامی بحث شروع کرانا ہے۔ 

ظالمانہ فوجی قبضے میں زندگی بسر کرنے والوں پر مسلسل مظالم برداشت کرنے سے پڑنے والے اثرات تو خود زبان بد حالی سے گواہی دیتے ہیں۔ مگر قابض حکومتوں کے آہنی ہاتھ بننے والے فوجیوں پر ان مظالم سے جو نفسیاتی اثرات رونما ہوتے ہیں وہ نمایاں نہیں ہوتے۔ ایسے فوجیوں کی اکثریت کی باقی زندگی اجتماعی اور انفرادی طور پر مسترد کئے جانے کا امتزاج ہوتی ہے۔ اسرائیلی معاشرے کے لیے غزہ اور مغربی کنارے کے ظالمانہ حالات ایک کڑوا سچ ہیں۔

یہ ایسے لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی سادگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ فوج میں بھرتی ہو کر وہ ملک کا دفاع کرتے ہیں مگر ان کی اکثریت نہتی بے گناہ شہری آبادی پر ظلم کرنے اور ان کو انسانی اور سیاسی حقوق سے محروم کرنے جیسے جرائم کا ارتکاب کرتی ہے۔ شہری زندگی میں واپس آنے کے بعد وہ پہلے جیسے نہیں رہتے بلکہ ان کے ذہنوں پرمظالم کی یادوں کے گہرے داغ رہ جاتے ہیں اور وہ شدید نفسیاتی اور جزباتی ذہنی دبأو میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ صورتحال عوامی اور نجی معاملات میں طاقت کے استعمال کے بارے میں نوجوان ذہنوں کے تصورات کو مسخ کر دیتی ہے۔
اس تنظیم کے پاس فلسطینیوں کے حقوق کی مسلمہ خلاف ورزیوں کی فہرست میں سفاکانہ قتل، اپاہج بنانا، لوٹ مار، اموال کی تباہی، شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کرنا، رشوت کے عوض مرضی کے شواہد حاصل کرنا جیسے جرائم شامل ہیں جن کا انکار اسرائیلی حکومت کرتی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک اسرائیل میں فلسطینیوں پرمظالم اور سرحد کے دونوں جانب ان کے اثرات کا ذکر کرنا شجر ممنوعہ بنا رہا۔ اور اس کا عزر یہ پیش کیا جاتا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کا تقاضا فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی منسوخی ہے۔

حال ہی میں دہ واقعات میں اسرائیلی پولیس نے بریکنگ دی سائلنس کے مظاہروں کو شدید طاقت کے استعمال سے روک دیا۔ جنوبی قصبے بیر شیبہ میں پولیس نے مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم سے مقامی شراب خانے میں تنظیم کا لیکچر روک دیا۔ عدالت کو پولیس نے درخواست کی تھی کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے تشدد کا خطرہ ہے جسے وہ روک نہیں سکتے۔ دوسرے واقعہ میں تل ابیب میں پولیس نے مقامی ریسٹورنٹ میں تنظیم کا پروگرام روکنے کے لئے عہدیداروں کو دھمکایا۔ اگرچہ بریکنگ دی سائیلنس تنظیم کی سرگرمیاں غیر قانونی نہیں ہیں مگر پولیس اس کو آذادی اظہار کے قانونی حق کے استعمال کے لئے تحفظ دینے پر تیار نہیں ہے۔

قانون سازی

اپوزیشن پارٹیاں اور سول سوسائٹی گروپ حکومت کو خوش کرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ ان کا مقصد حکومت کی نگرانی اور آذاد بحث و مباحثہ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ بریکنگ دی سائیلنس کی آواز کو دبانا کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں ہے۔ زیادہ تشویشناک پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا وہ مسودہ قانون ہے جس کا مقصد غیر ملکی امداد وصول کرنے والی ان جی اوز پر پابندی عائد کرنا ہے۔ اگر یہ کالا قانون پاس ہو گیا تو ایسی تمام این جی اوز جو اپنے نصف فنڈ بیرون ملک سے حاصل کرتی ہیں فنڈ دینے والوں کے نام بتانے کی پابند ہوں گی اور ان کے عہدیدار جب پارلیمنٹ آیئں گے تو ان کے لئے مخصوص شناختی کارڈ آویزان کرنا لازمی ہوگا۔

تمام ان جی اوز پر لاگو ہونے کی وجہ سے یہ قانون منصفانہ لگتا ہے مگر اس کا نشانہ انسانی حقوق اور بائیں بازو کی تنظیمیں بنیں گی جن کے فنڈ کا بڑا حصہ بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں سے آتا ہے، جبکہ دائیں بازو کی تنظیمیں اپنے فنڈ نجی اداروں سے حاصل کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانوں کو ٹرانسپیرنسی بل کا نام دیا گیا ہے جسے انصاف کے وزیر آیلیٹ شاکیڈ نے پیش کیا ہے، مگر اس کا مقصد اسرائیل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیموں کو ہراساں کرنا ہے۔

بریکنگ دی سائیلنس کی سرگرمیاں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے دیگر اداروں کی طرح اسرائلی معاشرے کو آئینہ دکھاتی ہیں جس پر اسرائیلی سیاسی نظام کے کچھ طبقات برافروختہ ہیں کیونکہ اس آئینے میں ان کا چہرہ سب سے نمایاں ہے۔ اس بدنما چہرے کو چھپانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ اس آئینے کو ہی توڑ دینا چاہتی ہے۔

یوسی میکل برگ 

Post a Comment

0 Comments