Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایک منفرد مفسر قرآن… مولانا امین احسن اصلاحیؒ

حسان عارف
بیالیس برس پہلے کی بات ہے کہ ضلع شیخوپورہ کے ایک گائوں رحمان آباد میں ایک ستر سالہ بوڑھا شخص دن بھر مچھروں اور مکھیوں کی یلغار میں کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔ کام سے فراغت کے بعد وہ سستا نے کے لئے شیشم کے درخت تلے آجاتا اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا۔ آنکھوں کے آپریشن نے اس کی بصارت کو کمزور کر دیا تھا مگر وہ شام کے دھند لکے میں لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر رات گئے آئندہ نسلوں کے لئے قرآن مجید کی ایک ایک آیت بلکہ ایک ایک نقطے پر اپنے عمر بھر کے فکر و تدبر کے نچوڑ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے میں مگن رہتا تھا۔ 
اسے نہ ہی دنیا کی ستائش کی تمنا تھی اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی منصب کا طلبگار تھا۔ یہ نامور مفکرِ اسلام مولانا امین احسن اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ تھے جو قرآن کی شہرہ آفاق تفسیر ’’تدبرِ قرآن ‘‘ لکھنے میں مشغو ل رہتے تھے۔ تفسیر تدبرِ قرآن علم قرآن کا مخزن اور انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس میں مولانا اصلاحیؒ کی تحقیق کا رنگ، اسلوب نگارش اور طرز استدلال ہر چیز ایسی ہے جو ان کے اس کارنامے کو منفرد بنا دیتی ہے جس کا ثبوت اس تفسیر کا ایک ایک صفحہ پیش کرتا ہے۔ 

اس تفسیر میں کسی سائنٹیفک اور علمی انداز سے قرآن مجید کی ہر سورہ اور ہر سورہ کی ایک ایک آیت کو معانی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ نگینوں کی مانند مربوط دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کا اصل حسن کلام اس کے اندر پائے جانے والے نظم میں پوشیدہ ہے اور یہ کہ ہر آیت کے اصل معانی اس وقت آشکار ہوتے ہیں جب انہیں ان کے نظم کلام کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ مولاناؒ نے کوشش کی کہ قرآن کا اصل مفہوم پیش کیا جائے، اس لئے آپ نے فقہی مسالک اور ان کی موشگافیو ں کو تفسیر میں جگہ نہ دی۔

 آپ سادہ سی تفسیر اختیار کرتے اور الفاظ سے لے کر جملوں، آیات کے مجموعوں اور پوری سورہ کی تشریح اس طرح کرتے جیسے کوئی گائیڈ کس نووارد کی انگلی پکڑ کر اسے منزل تک پہنچا دے۔ تدبر قرآن میں ہر جگہ ایک ہی تاویل کو اختیار کیا گیا ہے اور کثرت تا ویل کے طریق سے گریز کیا گیا ہے۔ قرآنیات پر تحقیق کرنے والا کوئی سکالر ’’تدبر قرآن‘‘ سے صرف نظر کر کے تفسیر کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ جو شخص اردو ادب کا اعلیٰ پائے کا ذوق رکھتا ہو، وہ اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 

مولانا اصلاحیؒ قرآن کی طرح حدیث کے بھی مستند عالم تھے مگر قرآن مجید کی اس خدمت کے آگے ان کی دوسری علمی خدمات ماند پڑ گئی ہیں، اگرچہ وہ بھی نہایت وقیع اور اپنی جگہ منفرد ہیں انہی میں ان کی خدمت حدیث کو شمار کیا جا سکتا ہے جس سے لوگ عام طور پر آگاہ نہیں۔ 1980ء کی دہائی میں آپ کی عمر اسی برس سے تجاوز کر چکی تھی تو انہوں نے حدیث پر لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ادارہ تدبر قرآن و حدیث کے رفقانے ان دروس کو مرتب کیا اور ’تدبر حدیث‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’’تدبر حدیث‘‘ علمی نکات سے بھری پڑی ہے۔ 

مولانا اصلاحیؒ نے قرآنیات، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، فلسفہ و کلام، تعلیم و تزکیہ اور سیاسیات غرض ہر موضوع پر لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہے وہ قرآن کو اساس بنا کر لکھا ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد بائیس ہے۔ ان کی تمام کتابیں خیال آفرین اور خیال افروز ہیں جو نئی نسل کے دل و دماغ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ تزکیۂ نفس، فلسفے کے بنیادی مسائل اور دعوت دین اور اس کا طریقہ کاران کی شاہکار کتابیں ہیں جو ان کے قرآن مجید کے گہرے مطالعہ کی غمازی کرتی ہیں۔ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے قرآن فہمی اور حکمت قرآن کی راہیں کھلتی ہیں اور مولانا کی فقہی بصیرت اور اجتہادی صلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ 

مولانا اصلاحیؒ کا اسلوب تحریر اور فکر اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصر حاضر کے عقلیت پسند اور جدت طلب حلقوں میں اپنا لوہا منوارہا ہے۔ ہندو پاک کے دینی اور علمی حلقوں میں فکرِ اصلاحی کو خاصی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے جس کا اندازہ اندرون ملک اور بیرون ملک پی ایچ ڈی، ایم فل اور ایم اے کے لئے لکھے گئے مقالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا اصلاحیؒ سترہ سال تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ آپ کا علمی مقام و مرتبہ ایسا تھا کہ انہیں مولانا مودودیؒ کے نائب کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ کو مولانا مودودیؒ کی اس حکمتِ عملی سے روز اوّل سے اختلاف تھا کہ جماعت کو اتنخابی سیاست میں کود پڑنا چاہیے۔ 

مولانا سمجھتے تھے کہ انبیاء کے طریقہ پر اقامت دین کی بساط اب لپیٹ دی گئی ہے۔ آپ اسلامی انقلاب کے لئے انتخابی سیاست کو ایک سعی لا حاصل سمجھتے تھے‘ آپ کا خیال تھا کہ سیاست دان کبھی اسلام نافذ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کامقصد ہر جائز و نا جائز طریقے سے اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ مولاناؒ کے نزدیک حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے معاشرے کو تیار کرنے میں بڑا وقت اور محنت درکار ہے۔ ان ہی اختلافات کی بنا پر آپ 1958ء میں جماعت سے علیحدہ ہو گے۔ یہ جماعت کی محرومی تھی یا مسلمانوں کی خوشی بختی کہ آپ نے جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد شہرہ آفاق تفسیر ’’تدبرِ قرآن ‘‘ تصنیف کی۔

 اس زمانے میں مولانا اصلاحی کا کردار اور مولانا مودودی سے ان کے اختلافات (جن کا یہاں ذکر کرنا غیر ضروری ہے ) کے خطوط، زاویے اور گوشے اب تاریخ کا حصہ ہیںاور اسلامی تحریکوں کے عروج و زوال کے تناظر میںآنے والے عہد کا مورخ ان دونوں بزرگوں کے کردار کا محاکمہ کرے گا اور صواب و ناصواب کا فیصلہ کرے گا۔ مولاناؒ آج ہمارے درمیان جسمانی لحاظ سے موجود نہیں ہیں مگر وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ 

آپ کی خوشبو پھیلتی چلی جائے گی۔ آپ کے پیچھے اندھیرا نہیں بلکہ روشنی ہے۔ مایوسی نہیں بلکہ اُمید ہے۔ ان کے مشن کے سپاہی ان کی فکر کو بلند رکھیں گے؎ عہد کے مفسر تھے امین احسن اصلاحی کیا ہی مدبر تھے امین احسن اصلاحی منفرد قسم کی ہے ان کی شرح قرآنی دین کے معلم تھے 

امین احسن صلاحی

Post a Comment

0 Comments