Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ

شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ سے علمی دُنیا کا کون سا فرد ناوَاقف ہوگا؟ قیامِ پاکستان کے لیے اُن کی گراں قدر خدمات ناقابلِ فراموش ہیں اور انہی خدمات کی وَجہ سے قائد اَعظم محمد علی جناح ؒنے پاکستان کا جھنڈا پہلی بار خود لہرانے کے بجائے علامہ عثمانیؒ کو منتخب کیا اور اُنہی کے ہاتھوں سے مغربی پاکستان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا۔ 

علامہ عثمانیؒ کی شخصیت اپنے علم و فضل، وَرَع و تقویٰ، تقریری و تحریری اور سیاسی خدمات کے لحاظ سے بلاشبہ ایک ایسی شخصیت تھی جس کی نظیریں ہر زمانے کی تارِیخ میں گنی چنی ہوتی ہیں، اللہ نے اُن کی زبان و قلم سے نہ صرف دِین اور علومِ دِین کی عظیم الشان خدمتیں لیں بلکہ تعمیر پاکستان کے سلسلہ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دِلوائے جنہیں چھپانے اور مٹانے کی ہزار کوششوں کے باوجود فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

 آپ پاکستان کے اُن مخلص معماروں میں سے تھے، جنہیں بانیانِ ملک میں صف اَوّل کا مقام حاصل رہا، لیکن قوم نے اُنہیں بہت جلد بھلادِیا، اُنہوں نے اُمت پر عظیم احسانات کیے، وہ جتنے ناقابلِ فراموش تھے، افسوس ہے کہ آج وہ اتنے ہی پردۂ خفا میں چلے گئے، سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سے بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہے کہ اس حادثے سے نظریۂ پاکستان غلط ثابت ہوگیا ہے، بعض حضرات نے تو یہاں تک کہہ دِیا کہ علامہ عثمانیؒ نے قیامِ پاکستان کے لیے جو جدوجہد کی تھی ۱۷۹۱ء کے بعد اُس کا تذکرہ قابلِ تعریف انداز میں نہیں کرنا چاہیے اور اس جدوجہد سے علامہ عثمانیؒ کی کوئی منقبت ثابت نہیں ہوتی 

 لیکن یہ بات اُس منفعلی ذہنیت کی پیداوَار ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ باطل کے ہاتھ میں تلوار آجائے تو وہ حق بن جاتا ہے، انصاف کی نظر سے دیکھنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا اَصل سبب نظریۂ پاکستان نہیں بلکہ اُس نظریہ کے حاملین کی بد عملی تھی، اگر کسی سچے نظریے کے علمبردَار اپنی کامیابی کے بعد بدعملی میں مبتلا ہوکر شکست کھا جائیں تو اس سے اس نظریے کو غلط ٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کے موجودَہ زوَال سے متأثر ہوکر (معاذ اللہ) اسلام ہی سے بد دِل ہوجانا۔ 
میرے وَالد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہٗ نے جن اکابر کی صحبت اُٹھائی اور جن سے آخر وقت تک خصوصی تعلق رہا، اُن میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ بھی شامل ہیں۔ حضرت وَالد صاحب نے ہدایہ کا کچھ حصہ اور صحیح مسلم حضرت علامہؒ ہی سے پڑھی تھی اور جب علامہؒ ڈَابھیل میں صحیح بخارِی کا دَرس دیتے تھے تو ایک مرتبہ بیمارِی کی بنا پر تدرِیس سے معذور ہوگئے۔ اُس موقع پر حضرت علامہؒ نے اپنی جگہ صحیح بخارِی کا دَرس دینے کے لیے والد صاحب کو نامزد فرمایا۔ والد صاحب اُس وَقت دَارُالعلوم دِیوبند سے مستعفی ہوچکے تھے۔ 

حضرت علامہؒ کی فرمائش پر ڈَابھیل تشریف لے گئے اور چند ماہ وَہاں علامہؒ کی جگہ صحیح بخارِی کا دَرس دِیا، پھر جب قیامِ پاکستان کے لیے علامہ عثمانیؒ نے ملک گیر جدوجہد شروع کی اور اس غرض کے لیے جمعیت علماء اسلام کا قیام عمل میں آیا تو والد صاحب اس پورِی جدجہد میں علامہؒ کے دست و بازو بنے رہے اور اس غرض کے لیے ملک کے طول و عرض میں دورے کیے۔ متعدد مقامات پر جہاں علامہ عثمانیؒ تشریف نہیں لے جاسکتے تھے، والد صاحب کو اپنی جگہ بھیجا اور سرحد ریفرنڈم کے موقع پر پورے صوبہ سرحد کا دورہ کرتے ہوئے والد صاحب کو اپنے ساتھ رَکھا۔

 پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو علامہ عثمانیؒ ہی کی دعوت پر والد صاحب پاکستان تشریف لائے۔ انہی کی ہدایت پر تعلیماتِ اِسلامی بورڈ میں شامل ہوئے جو اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، پھر علامہؒ کی وَفات تک ہر اہم معاملہ میں اُن کے شریک کار رہے اور حضرت علامہؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادَت بھی آپ ہی کو حاصل ہوئی۔

 چوں کہ علامہ عثمانیؒ پاکستان کے صف اَوّل کے معماروں میں شامل تھے، اس لیے قائد اعظمؒ اور نواب زادہ لیاقت علی خان تقسیم ملک کے وقت آپ کو اپنے ساتھ پاکستان لے آئے تھے اور مغربی پاکستان میں پاکستان کا پرچم سب سے پہلے علامہؒ ہی نے لہرایا۔ اَگر آپ چاہتے تو یہاں اپنے لیے بہت کچھ دُنیوی ساز و سامان اور عہدہ و منصب حاصل کرسکتے تھے، لیکن علامہؒ نے آخر وَقت تک درویشانہ زِندگی گزارِی۔ اَپنے لیے کوئی ایک مکان بھی حاصل نہ کیا، بلکہ وَفات کے وَقت تک دو مستعار لیے کمروں میں مقیم رہے اور اُسی حالت میں دُنیا سے تشریف لے گئے کہ نہ آپ کا کوئی بینک بیلنس تھا، نہ ذَاتی مکان تھا، نہ ساز و سامان۔ 

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

Post a Comment

0 Comments