Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بیروت، بغداد، پیرس — کچھ جانیں دوسروں سے زیادہ اہم؟

انسانی جان کا ضیاع جب تک مغرب میں نہ ہو، تب تک ہلاکتیں صرف ایک نمبر ہوتی ہیں، پھر چاہے جتنے بھی لوگ جان کی بازی ہار جائیں۔
میرا دنیا بھر کے ان لوگوں پر تنقید کا کوئی ارادہ نہیں جو اس وقت فرانس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس زخمی قوم کو وہ حمایت فراہم کر رہے ہیں جس کی اسے ضرورت ہے۔

یہ تقریر کسی خاص شخص یا گروہ کی جانب نہیں ہے۔ میں اس ان کہے معاہدے پر تنقید کر رہا ہوں جس کے تحت کچھ جانوں کی قدر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

پیرس کے معصوم لوگوں پر 13 نومبر کی رات کو ہونے والے حملوں کے سلسلے نے سب ہی میں خوف کی لہر دوڑا دی۔ ہم نے ٹی وی پر ہلاکتوں کی تعداد کو سو سے تجاوز کرتے دیکھا اور سوشل میڈیا پر پیرس کے لیے دعا کی اپیلیں کی جانے لگیں۔

ہمیں دعا کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ ہمارے ہاتھ پہلے ہی دعا کے لیے بلند ہو چکے تھے۔

شروع شروع میں تو ہم میں سے کسی میں اتنا تحمل نہیں تھا کہ وہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے "عراق کے لیے مذمت کیوں نہیں؟" "فلسطین کے لیے مذمت کیوں نہیں؟" جیسے سوالات کے جواب دیتے۔
مگر کچھ ہی دیر میں میڈیا نے اس سانحے پر اٹھنے والے طوفان کو اس قدر بڑھا دیا کہ تیسری دنیا کا کوئی شہری اپنے لیے ایسی کوریج کی توقع نہ کرے۔
فیس بک نے فوراً پیرس میں رہنے والے صارفین کے لیے سیفٹی چیک فیچر متعارف کروا دیا، جو اس سے پہلے قدرتی آفات کے علاوہ کبھی بھی نافذ نہیں کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ڈسپلے پکچرز فرانسیسی پرچم کے رنگوں سے مزین ہوگئیں۔
ہمیں ایسا کرنے کا خیال تب تو نہیں آیا جب پیرس حملوں سے صرف ایک دن قبل جڑواں دھماکوں نے بیروت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں 41 لوگ ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔

سوشل میڈیا صارفین حیران تھے کہ فیس بک نے بیروت میں رہنے والے لوگوں کے لیے سیفٹی چیک فیچر کیوں نہیں متعارف کروایا؟ یا پھر اپنے صارفین کو یہ آپشن کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنی پروفائل پکچر کو لبنانی پرچم کے رنگ میں رنگ سکیں؟

پچھلے 48 گھنٹوں میں تقریباً ہر سیاسی شخصیت، آرٹسٹ، اور فنکار نے پیرس حملوں کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا ہے۔
نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے لے کر لندن برج تک تمام مشہور تعمیرات پر فرانسیسی پرچم کے رنگ کی لائٹس ڈالی گئیں۔ دنیا بھر میں پیرس حملوں کے خلاف شمعیں روشن کی گئیں۔     

مرکزی میڈیا پر پیرس کے علاوہ تمام حادثات اور سانحات کی خبریں صرف ٹی وی کی نچلی جانب ٹکر کی صورت میں چل رہی تھیں، اگر چل رہی تھیں تو۔
بیروت میں بچ جانے والوں کے تفصیلی انٹرویوز نہیں کیے گئے، اور نہ ہی اس بارے میں کوئی خبر دی گئی کہ بغداد میں بچ جانے والے کن حالات میں ہیں۔
قدرتی طور پر اس "منتخب مذمت" کے خلاف شور اٹھا اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت پڑی کہ سیفٹی چیک پیرس کے لیے کیوں اور بیروت کے لیے کیوں نہیں جاری کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر تین رنگی ڈسپلے پکچرز والوں نے پیرس کے لوگوں سے یکجہتی کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا، لیکن یہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا، اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ انہیں 'تیسری دنیا' کے لوگوں پر ہونے والے تشدد پر کوئی ہمدردی نہیں ہے۔

بیروت کے بارے میں پوچھنے والوں پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ فرانس میں ہونے والے سانحے کو چھوٹا دکھانے اور مغرب کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بیروت کی فکر کر رہے ہیں۔
کیونکہ آخر کار ہم لوگوں نے بیروت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی جب تک کہ پیرس والوں پر حملہ ہوا۔
ہاں اس کے پیچھے غیر منطقی مغرب مخالف جذبات ہو سکتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر نے لبنان میں ہونے والے سانحے کے بارے میں سنا ہی نہیں تھا۔

مرکزی دھارے کی میڈیا نے بیروت اور بغداد میں ہونے والے دھماکوں کی رپورٹنگ صرف صحافتی مجبوری سمجھتے ہوئے کی، صرف اتنے جذبے کے ساتھ جو چھٹیوں سے لوٹ کر اسکول جانے والے بچوں میں ہوتا ہے۔
لیکن دوسری جانب انتہائی دور دراز اور دنیا سے کٹے ہوئے علاقوں کے علاوہ ہر کوئی پیرس حملوں کے بارے میں جان چکا ہے۔ ہر کوئی اس بارے میں معلومات رکھتا ہے اور اس پر رائے رکھتا ہے، صرف اس لیے کہ ہر جگہ یہی بحث جاری ہے۔

پچھلے کچھ دنوں میں اس نظریے کو فروغ ملا ہے کہ مغرب میں ہونے والے سانحے عالمی سانحے ہوتے ہیں، جبکہ کسی بھی دوسری جگہ ہونے والا سانحہ صرف ایک مقامی مسئلہ ہوتا ہے۔

پیرس کو ملنے والی کوریج بجا، میں چاہتا بھی نہیں ہوں کہ اسے کم کوریج ملے۔ مگر یہ پوچھنا بالکل درست ہے کہ یہی کوریج غزہ، بغداد، راکھین، یا گریسہ کو کیوں نہیں ملتی کیونکہ بہرحال کہا تو یہی جاتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب کی جانیں برابر کی اہمیت رکھتی ہیں۔
مایوس ہونا غلط نہیں ہے، بھلے ہی ہم جانتے ہیں کہ مغرب میں تشدد اور آفات کا نشانہ بننے والوں سے ہماری ہمدردی اور ان کی حمایت کا صلہ ہمیں اتنا نہیں ملے گا۔

ایک نائجیریائی شخص بخوشی فیس بک پر اپنی ڈسپلے پکچر فرانسیسی پرچم کے رنگ میں ڈھال لے گا، لیکن اگر اس کے اپنے شہر میں ہی بم دھماکہ ہو، تو سوشل میڈیا پر نائیجیریائی پرچم آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔
اس لیے یہ سوچ کر اداس ہونا غلط نہیں کہ دنیا نے ہمارے درد کو روز مرہ کا معمول سمجھ لیا ہے، اور ہمارے سانحات پہلی دنیا کے 'حقیقی' سانحات کے مقابلے میں صرف پس منظر میں ہیں۔

فراز طلعت

Post a Comment

0 Comments