Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

زلزلے کے اسباب، اسلامی نقطۂ نظر

پاکستان کے بعض علاقوں میں حالیہ زلزلے سے بہت تباہی پھیلی ہے۔ بہت سے لوگ اس کا شکار ہوکر چل بسے اور سیکڑوں شدید زخمی اور مالی نقصانات اس کے سوا ہیں۔
جب سے دنیا بنی ہے، تب سے اب تک اور تاقیامت آفات و حوادث پیش آتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آفات و بلیَات کے اسباب و عوامل اور عناصر معلوم کرکے ان کی روک تھام کا بندوبست کیا جائے، یہ عقل انسانی کے عین مطابق بھی اور وقت کا اہم تقاضا بھی۔

زلزلے کے اسباب
بعض لوگ زلزلے کو محض سائنس کا ہی کرشمہ تصور کرتے اور اس کے اسباب کو سائنسی وجوہات کے زاویے سے ہی پرکھتے ہیں۔ جب کہ اہل اسلام کا اس کے بارے میں نظریہ وہی ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ سائنسی وجوہات کا دارومدار بھی تو اﷲ احکم الحاکمین کے حکم پر ہے۔ اس لیے محض سائنسی وجوہات تک محدود رہنے کی بجائے اس کے آگے اﷲ رب العزت کے حکم اور ارادے کو جاننا اور ماننا چاہیے۔ دنیا میں جو کچھ فساد رونما ہوتا ہے اس بارے میں اﷲ رب العزت کا واضح ارشاد موجود ہے کہ، بر و بحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا کیا دھرا ہے۔

جامع ترمذی میں روایت ہے حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد    فرمایا کہ
’’٭جب مال غنیمت کو ذاتی ملکیت سمجھا جانے لگے،٭ امانت، مال غنیمت سمجھ کر دبالی جائے، ٭ زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے،٭ دینی تعلیم دنیاوی مفادات کے لیے حاصل کی جائے،٭ انسان اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کو ستائے، ٭ دوست کو قریب اور ماں باپ کو دور کرے،٭ انسان کی عزت اس لیے کی جائے تاکہ وہ شرارت نہ پھیلائے، ٭ گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے
٭ شرابیں پی جانے لگیں، ٭ اور بعد میں آنے والے لوگ امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔ تو اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگا ٹوٹ جا ئے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں‘‘۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ’’ام المؤمنینؓ ہمیں زلزلے کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا ’’ جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو اﷲ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کرلیں اور بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ 

حضور اقدسؐ کے مبارک زمانے میں زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا تو آپؐ نے زمین پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’اے زمین! تو ساکن ہوجا‘‘ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔ اس کے بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔ سیدنا عمر بن الخطابؓ کے زمانۂ خلافت میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے۔‘‘

فقیہ امت اور جلیل القدر صحابی سیدنا عبداﷲ ابن مسعودؓ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا: اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے، تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پروا نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’ اْمّت میں زمین دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ ہونے کا اور پتھر برسنے کا عذاب بھی ہو گا‘‘ ایک شخص نے عرض کیا کہ کب ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہو جائے گا اور شرابیں پی جانے لگیں گی۔ 
(سنن ترمذی)

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے گورنروں کو پیغام بھیجا تھا کہ ’’سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ نیز حضرت آدمؑ کی دعا ’’اے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر تو ہمیں معاف نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔‘‘
(الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی54، 53، مصنفہ ابن القیم)

شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے انہیں یہ لکھ کر بھیجا: نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیوںکہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے: بے شک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔ توبہ و استغفار، صدقہ اور بعض اہلِ علم کے نزدیک (ایسے موقع پر) جماعت کے علاوہ (اکیلے، انفرادی) نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ چناںچہ بیہقی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباسؓ نے بصرہ میں زلزلہ (نہ ہونے یا رْکنے) کی نماز پڑھی۔

جذبۂ خیر خواہی

یاد رکھیں کہ زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات محض عذاب ہی نہیں بل کہ اﷲ کے نیک بندوں پر بطور آزمائش بھی آتی ہیں، اس لیے رجوع الی اﷲ کے ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے تمام افراد سے گزارش ہے کہ آفت زدہ لوگوں کی بلا تفریق مذہب بہ حیثیت انسان ہر ممکن مدد کی جائے، بالخصوص اسلام تو اپنے پیروکاروں کو یہی تعلیم دیتا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں اجتماعی طور پر مسلم و غیرمسلم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر رفاہی خدمات انجام دی جائیں۔ اﷲ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور اس تنبیہ سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مولانا محمد الیاس گھمن

Post a Comment

0 Comments