Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

باتیں سراج الحق کی

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بنیادی طور پر ایک سیاسی کارکن ہیں۔ وہ صحافیوں کے سخت سوالات کو برداشت کرتے ہیں اور خوبصورتی سے اس طرح جواب دیتے ہیں کہ ان کی مدہم آواز سننے والے کو یہ نہیں محسوس ہونے دیتی کہ موصوف کو یہ سوال پسند نہیں آیا۔ وہ گزشتہ ہفتے کراچی آئے تو ایک نشست میں ان کے خیالات سے آگہی ہوئی۔

سراج الحق نے اپنی گفتگو میں یمن کے تنازعے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذکر کیا۔ سراج صاحب کا کہنا تھا کہ یوں تو کئی اسلامی ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں مگر یمن میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے اسلامی ممالک میں منفی اثرات برآمد ہو ر ہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے ایران اور سعودی عرب کی حکومتوں کے اکابرین کو بھی اس گھمبیر صورتحال کو ختم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں دولت کے استعمال پر تشویش ہے۔ اس صورتحال کی سنگینی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کا تداراک نہ ہوا تو پھر یہ جمہوریت عام آدمی سے دور ہو جائے گی۔ وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات اور اقدامات کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔

سراج الحق نے کہا کہ انتخابی اصطلاحات کے لیے ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔ سراج الحق نے جمہوری نظام کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے انتخابات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ امریکا میں کوئی صدر دو دفعہ مدت پوری کرنے کے بعد انتخاب نہیں لڑ سکتا ۔
انھوں نے کہا کہ جن جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے وہ ملک میں کس طرح جمہوریت قائم کریں گی؟  وہ اپنی جماعت کو مثالی جمہوری جماعت قرار دیتے ہیں  جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ جماعت کی شوریٰ نے صوبائی اور ضلع امیروں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ دو مدت سے زیادہ اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے مگر امیر جماعت اسلامی اس پابندی سے مستثنیٰ ہے۔ سراج الحق نے سندھ کے بلدیاتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے سلب کردہ حقوق بحال کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام اختیارات سے محروم ہے۔

یہ نظام شہروں اور دیہی علاقوں میں ترقی کے عمل کو بہتر نہیں کر سکتا۔ ا نہوں نے پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو ملک کا سب سے زیادہ بہتر اور بااختیار نظام قرار دیا۔ سراج الحق کے مطابق  وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی قانونی میعاد پوری کرنی چاہیے۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کے گزشتہ سال لاہور میں ہونے والے اجتماع میں شریک اسلامی تنظیموں نے ایک مشترکہ اعلامیے کی منظوری دی تھی۔ اس اعلامیے میں واضح کہا گیا تھا کہ اسلامی ممالک میں جمہوری طریقے سے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کسی قسم کے غیر قانونی راستے یا غیر ریاستی کرداروں کے تشدد کے طریقے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تضادات ہزار سال سے ہیں۔ خلافت، مسلمانوں کی آخری سلطنت عثمانیہ جو ترکی سے حجاز تک پھیلی ہوئی تھی ایک مخصوص مکتبہ فکر کی نشاندہی کرتی تھی۔ یوں دوسرے فرقوں کے لوگ ریاستی معاملات میں اجنبی سمجھے جاتے تھے۔

جب دوسری جنگ عظیم کے بعد عراق، شام، الجزائر، مصر میں قوم پرست حکومتیں قائم ہوئیں تو پھر تمام مسالک کے لوگوں کو ان ریاستوں میں برابر کا حصہ ملا۔ ایران میں  اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ رحجانات کو تقویت ملی۔ امریکا نے افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے اس رحجان کو استعمال کیا، پھر امریکا کے عراق پر حملے اور بعث پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پورا مشرق وسطیٰ فرقہ وارانہ بحران کا شکار ہوا۔

لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے، شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف امریکا، ترکی اور سعودی عرب کی فوج کشی سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے جس کے اثرات یمن اور سعودی عرب پر پڑے اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیم کا ابھرنا۔ مگر یہ خوش آیند بات ہے کہ جماعت اسلامی جمہوری عمل میں شریک ہو کر مسلمان ممالک میں تبدیلی کی حامی ہے مگر اسلامی دنیا میں طالبان، القاعدہ، داعش اور کئی چھوٹے گروپ مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنے نظریات پر مبنی اسلامی مملکتیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سراج الحق محض ملاقاتوں سے ایران اور سعودی عرب کو اپنے موقف میں تبدیلی پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ ترکی کی حکومت امریکا اور سعودی عرب کے اتحاد کے ساتھ ملکر شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے لیے داعش انتہا پسند تنظیموں کی مدد کر رہی ہے۔ سراج صاحب تو جمہوری تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر ان کے سابق امیر منور حسن قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ لگاتے تھے۔ اگر جماعت اسلامی، اسلامی ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک میں تشدد کے راستے کی ترویج کرے گی تو پھر اسلامی ممالک اس کے اثرات سے کس طرح بچ سکیں گے۔ سراج الحق کی یہ بات بہت اہم ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام ایک ناقص نظام ہے۔

اس کے اختیارات میں اضافے کے بغیر  یہ موثر نہیں ہو سکتا ۔ اس طرح انتخابات میں پیسے کے استعمال کو روکنے کا راستہ چاہیے، انتخابی اصطلاحات سے ممکن ہے۔ مگر جماعت اسلامی سمیت دوسری جماعتیں پارلیمنٹ کے جامع اطلاق کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس موقعے پر پروفیسر غفور احمد یاد آتے ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کی تیاری میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ سراج الحق کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔

انھوں نے طالب علم کارکن کی حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور محنت کر کے امیر کے عہدے پر پہنچے۔ وہ معاشرے کے مذہبی، معاشرتی، سماجی، سیاسی تضادات سے واقف ہیں اور اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کا جمہوری عمل پر یقین ایک نیک شگون ہے مگر وہ ضرور ایک دن اس حقیقت کو محسوس کریں گے کہ حقیقی جمہوریت سیکولر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان


Post a Comment

0 Comments