Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

قندوز کی جنگ کے مضمرات

دو متحارب قوتوں’یعنی امریکہ اور طالبان کے درمیان قندوز کی لڑائی فیصلہ کن مقام پر آچکی ہے۔ افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوکرامریکہ پسپا ہوچکا ہے اور اپنے پیچھے 12000 فوجی چھوڑ گیا ہے جو پانچ فضائی اڈوں سے کاروائیاں کر کے کابل کے حکمرانوں کی مدد کر رہے ہیں جن کی حکومت افغانستان کے شہری علاقوں تک محدود ہو چکی ہے جبکہ طالبان کو ملک کے اسی فیصد (80%) دیہی علاقوں کا کنٹرول حاصل ہے جہاں پر شرعی قوانین نافذ ہیں۔ اس طرح قندوز کی جنگ متحارب قوتوں کی جنگی حکمت عملی کی کامیابی 
وناکامی کا اصل امتحان ہے۔
امریکی حکمت عملی تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں صدر اوبامہ نے یہ کہہ کر واضح اعتراف شکست بھی کر لیا ہے کہ: "صرف عسکری طاقت اورسرمایہ جنگوں میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوا کرتے۔" افغان حکومت کو اندرونی خلفشار اور کمزور نیشنل آرمی جیسے مسائل درپیش ہیں جو طالبان کے مقابلے میں " خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ رہی ہے۔" دوسری جانب طالبان کی جنگی حکمت عملی ’ ملا عمرکی وضع کردہ حکمت عملی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ مارچ 2003ء کے اوائل میں کرشماتی شخصیت کے حامل طالبان رہنما جلال الدین حقانی پاکستان آئے اور ایک ملاقات میں راقم کو طالبان کی جنگی حکمت عملی سے متعارف کرایا:

٭ "ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ متحد ہوکے مکمل آزادی تک جنگ جاری رکھیں گے اور انشاءاللہ فتح یاب ہونگے۔جب ہم بیرونی تسلط سے آزادی حاصل کر لیں گے تو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے جو تمام افغانوں کیلئے قابل قبول ہوگا۔ ماضی کی غلطیاں ہم نہیں دہرائیں گے۔

٭ "اب ہم سوویٹ یونین کی پسپائی کے بعد 1989-90ء کی طرح امریکہ اور پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئینگے بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک کے تعاون اور شمالی اتحاد کے اشتراک سے افغانستان میں قیام امن یقینی بنائیں گے۔

٭ "پاکستان اس جنگ میں ہمارے دشمنوں کا اتحادی اور شراکت دار ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے لئے پاکستان بہت اہم ہے کیونکہ ہماری قومی سلامتی کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ہماری منزل ایک ہے۔

٭"ہمیں عنقریب ایک سخت جدوجہد کا سامنا ہوگا لیکن ہم اس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے پر عزم ہیں کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ : “ اگر وہ تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیرپھیر کر بھاگ جائیں گے۔”

گذشتہ پندرہ سالوں کے عرصے میں طالبان نے دنیا کی عظیم طاقتوں کےخلاف انتہائی سخت جنگ کا سامنا کیاہے’ جس میں امریکہ ’ یورپی یونین اور دیگر طاقتیں شامل ہیں۔اس دوران انہوں نے علاقائی کمانڈروں کے ماتحت غیر منظم گوریلاجنگ لڑی ہے جبکہ ان کی اعلی قیادت مستحکم رہی ہے ’پہلے ملا عمرتھے اور اب ملا منصوران کے قائد ہیں۔ ان کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے’ اس لئے کہ انہیں صرف اندرون ملک سے مدد حاصل تھی اور وہ بھی مفلوک الحال اور جنگ سے تباہ حال افغانی عوام کی حمایت جو ان کی اصل قوت ہیں۔

طالبان نے اپنے جنگی ٹھکانے (Support bases and sanctuaries)تبدیل کرنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مزاحمتی قوت کا مرکز شمال کی جانب منتقل کر دیا ہے۔کیونکہ فاٹا کے علاقوں میں انکے جنگی ٹھکانے اور امداد ی کیمپ پاکستانی فوج نے تباہ کر دئیے تھے۔ اب بدخشاں’ تخار’ فریاب’ زابل’ بغلان’ جوزجاں’ باغدیس اور قندوز کے صوبوں میں ان کا نیا امدادی کیمپ قائم ہو چکا ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ انکی جنگی طاقت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے کیونکہ ازبکستان کی تحریک آزادی (Movement for Independence of Uzbekistan – MIU) ’ تاجکستان‘ ترکمانستان اور سنکیانگ کے مجاہدین کے علاوہ اندرون ملک سے ازبک’ تاجک اور ہزارہ کے مجاہدین مسلسل ان میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔یہ ٹھکانے طالبان کے لئے بیرونی زمینی خطرات سے بھی محفوظ ہیں کیونکہ کسی بھی فوج میں اتنی ہمت نہیں کہ ان علاقوں تک رسائی حاصل کرسکے۔

اب یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ طالبان مستقبل قریب میں کس طرح کی حکمت
 عملی اختیار کریں گے۔طالبان اب آہستہ آہستہ اندرونی علاقوں پر اپنا کنٹرول وسیع کرتے جائینگے تاکہ دفاعی افواج کیلئے نقل و حرکت کی جگہ محدود ہوتی جائے’ وہ قلعہ بند لڑائی سے بچنے کیلئے شہروں اور قصبوں پر قبضہ کرنے سے اجتناب برتیں گے۔قندوز پر قبضہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ دفاعی فوجوں نے اپنی دفاعی چوکیوں کو خالی کر دیا تھا جبکہ طالبان کا مقصد اپنے پانچ سو قیدیوں کو رہا کرانا تھا جیسا کہ انہوں نے چند ماہ قبل کابل میں کیا اور تین سو قیدی رہا کرائے تھے۔اب انہوں نے بڑے شہروں اور قصبوں کو جانے والے اہم سپلائی راستوں کو ہدف بنا نا شروع کیا ہے اورتاجکستان کی سرحد پر واقع شیر خان کی خشک بندرگاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کیلئے سول او ر فوجی امداد کی سپلائی روکی جا سکے۔

اسی طرح سالانگ ٹنل اور کابل کو جانے والی شاہرہ بھی انکی زد میں ہے۔یہ دفاعی فوج کومحصور کرنے اورمحدود کرنے کی حکمت عملی ہے جس کے بعد شہروں اور قصبوں کا محاصرہ ممکن ہو گا تاکہ دفاعی فوجوں کو امن کی راہ پر لانے پر مجبور کیا جا سکے یا وہ ہتھیار ڈال دینگے۔امکان ہے کہ سردیوں کے موسم تک یہ صورت حال جاری رہے گی اور اسکے بعد تذویراتی اہمیت کے حامل شہروں اور فضائی اڈوں پر قبضہ کرنے کی جنگ ہوگی جہاں امریکی فوجی ٹھہرے ہوئے ہیں۔

قندوز میں داخل ہونے کے بعد طالبان نے اعلان کیا کہ وہ داعش جیسا طرز عمل اختیار نہیں کرینگے۔ انہوں نے لوگوں کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کیا ہے جن کے ہاتھوں انہوں نے 2001ء کے امریکی حملے کے دوران اذیتیں اٹھائی تھیں۔وہ انتقام پر یقین نہیں رکھتے بلکہ نسلی اقلیتوں کے ساتھ خصوصی امن و باہمی تعاون کے خواہاں ہیں۔ اسی سبب نتیجہ یہ ہے کہ تاجک’ ازبک ’ ترکمان ’ ہزارہ اوروہ پختون قبائل جنہوں نے ماضی میں افغان حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا ’ اب طالبان میں شمولیت اختیار کرتے جارہے ہیں جس سے عوام میں ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے اور یہ سوچ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ثابت ہوگی۔

طالبان نے قندوز میں اسلحہ و گولہ بارود اور فوجی سازوسامان کے بڑے ذخیرے پر قبضہ کرلیا ہے اور شیرخان کی خشک بندرگاہ سے حاصل ہونے والے پانچ سو ٹرکوں سے انہیں مزید عسکری سازوسامان حاصل ہوگا جس سے وہ طالبان کی ایک اچھی خاصی تعداد کومسلح کر سکیں گے جو آئندہ سال کی لڑائی میں بہت کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس طرح جو صورت حال افغانستان میں ابھر رہی ہے وہ کافی حد تک عراق کی صورتحال سے مشابہ نظر آتی ہے جو داعش کے ابھرنے کا سبب بنی لیکن افغانستان کی صورتحال اس سے بہت مختلف ہے کیونکہ یہاں طالبان نے اپنے کمانڈا ور کنٹرول سسٹم کو برقرار رکھا ہے اور سیاسی طور پر باشعور قیادت افغان عوام کیلئے امن و ہم آہنگی کی خواہاں ہے جو نام نہاد مہذب قوموں کے ہاتھوں اٹھائے جانیوالے ظلم و ستم کے مارے ہوئے ہیں۔

افغان عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا قرض ان نام نہاد مہذب قوموں کے سر ہے’ جن کی جارحیت کے سبب گذشتہ پینتیس سالوں کی ظالمانہ جنگ کے دوران افغان قوم کی دونسلوں کو قتل ’ تباہی و بربادی’ناانصافی اور محرومی کا سامنا رہا ہے۔

افغانیوں کی لازوال قربانیوں اور کامیاب جدوجہد آزادی نے خطے کے تذویراتی و
 جغرافیائی حقائق کو بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس تذویراتی تبدیلی کا نام روس’ چین’ پاکستان’ ایران اور افغانستان کے درمیان ابھرتا ہوا اتحاد ہے جوپاکستان سے متقاضی ہے کہ وہ اس نئی ابھرنے والی حقیقت سے ہم آہنگ ہوکر پاکستان اور خطے کے بہتر مستقبل کی خاطر’ماضی کی ناکام پالیسیوﺅں سے الگ ہو کر اس نئی حقیقت کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے جو بڑی کامیابی اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

جنرل مرزا اسلم بیگ
بہ شکریہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘

Post a Comment

0 Comments