Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مقتدرِ اعلیٰ کون؟ سپریم کورٹ کی رائے منقسم

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی اکثریت نے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے حق میں فیصلے جاری کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اس حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ عوام کی رائے کی ترجمانی کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔

سپریم کورٹ کےاکثریتی فیصلے کے بعد یہ معاملہ بظاہر حل تو ہوگیا ہے لیکن اس دوران بعض بہت اہم جج صاحبان اور وکلا کی جانب سے اس بنیادی اصول کی مخالفت میں بھی فیصلے اور رائے سامنے آ رہی ہیں۔
مثال کے طور پر جس سترہ رکنی بنچ نے چھ کے مقابلہ 11 کی اکثریت سے اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں فیصلہ دیا۔

اسی بنچ کے رکن جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے اپنے ساتھی ججوں کی اکثریت سے بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کے معاملے میں مکمل طور پر بااختیار نہیں ہے۔
’پارلیمان آئین میں ترمیم کے معاملے میں مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہے کیونکہ اس کے آئین میں ترمیم کرنے کے اختیار کی کچھ حدود ہیں۔ یہ حدود محض سیاسی نہیں ہیں بلکہ عدالتی نظر ثانی کے تابع ہیں۔ لہٰذا اس عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی کسی ترمیم کو کالعدم قرار دے جو ان حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔‘
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے سابق جج، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود جسٹس خواجہ کے اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ اور ان کی امنگوں کی ترجمان ہے اور عوام کی رائے کو رد کرنے کا اختیار عدالت سمیت کسی کے پاس نہیں ہے۔

’فرض کر لیجیے کہ ایک جماعت انتخابی منشور میں عوام سے ایک وعدہ کرتی ہے اور سو فیصد ووٹ لے کر حکومت بناتی ہے۔ اب اگر وہ جماعت اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرتی ہے تو آپ اس کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟

بعض مبصرین عدالت کے فیصلے میں ججوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو بھی بہت معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے تو یہاں تک کہ دیا کہ انہیں یاد نہیں کہ کسی بھی بنچ میں شامل اتنی بڑی تعداد میں ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہو۔
وزیراعظم کے قانونی مشیر بیرسٹر ظفراللہ اس اختلافی نوٹ کو ایک صحت مند رجحان قرار دیتے ہیں۔

’ہمیں تو اس اختلافی نوٹ پر خوش ہونا چاہیے۔ یہ کوئی مارشل لا نہیں ہے کہ ایک آدمی نے کہہ دیا اور سب نے مان لیا۔ ججوں کا اختلاف اس طرح کے اہم معاملات میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ فوجی یونٹ اور سپریم کورٹ میں ہمیں فرق کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ کے اس منقسم فیصلے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے ایسی آرا بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر شخصیات کی چھاپ بھی بہت واضح ہے۔ ایک خاص شخصیت اور ذہن رکھنے والے جج ایک رائے رکھتے ہیں اور مختلف ذہن رکھنے والے ججوں کے فیصلوں میں ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق عہدیدار اور وکیل اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ آج کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے وقت اور آج کی سپریم کورٹ میں بہت فرق ہے۔
’2007 میں ہمارا خیال تھا کہ ہم چل پڑے ہیں قانونی کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی طرف۔ یہ جو روایتی فیصلہ آج دیکھنے میں آیا ہے اس کے مقابلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں نے آئین کے اصولوں کی پاسبانی اور پاسداری کا حق ادا کر دیا ہے۔

اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ انہیں یہ فیصلہ سن کر ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان میں نظریہ ضرورت ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے۔

آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments