Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ماؤنٹ ایورسٹ کی تاریخ میں سب سے بڑی تباہی....

نیپال میں آنے والے زلزلے سے وہاں موجود دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کا شکار ہوئی ہے۔
نیپال کے محکمہ کوہ پیمائی کے مطابق کوہ پیماؤں سمیت17 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاپتہ یا زخمی ہونے والے کوہ پیماؤں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

میں نے بہت اونچی آواز سنی تھی، اور دوسری بات جو میں جانتا ہوں وہ یہ کہ میں برف کے ریلے تلے دب گیا۔زخمی گائیڈ

سنیچر کے زلزلے کے بعد اتوار کو چھ اعشاریہ سات کی شدت سے آنے والے سب سے شدید آفٹر شاکس سے مزید برفانی تودے گرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ان غیر ملکیوں کی شہریت واضح نہیں ہو سکی اور زخمیوں کو امداد دی جا رہی ہے۔ زلزلے کے بعد تودے گرنے اور آفٹرشاکس کے خدشے کی وجہ سے ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔

امداد کے لیے علاقے میں ہیلی کاپٹرز پہنچائے گئے جو زخمیوں کوقریبی گاؤں لے جاکر انھیں طبّی امداد فراہم کر رہے ہیں۔تاہم موسم کی شدت کے باعث امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے نیپال کی وزارتِ سیاحت کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس وقت زلزلہ آیا تو اس وقت کم ازکم 1000 کوہ پیما جن میں 400 غیر ملکی بھی شامل ہیں یا تو بیس کیمپ میں موجود تھے یا پھر اپنی مہم جوئی کا آغاز کر چکے تھے۔

حکام کے مطابق ایورسٹ کے بیس کیمپ سے اوپر کیمپ نمبر ایک اور دو میں 100 کوہ پیما اور گائیڈ موجود تھے لیکن وہ زلزلے کے باعث راستہ خراب ہو جانے کی وجہ سے نیچے آنے میں ناکام ہیں۔
ادھر چینی میڈیا نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے دو گائیڈز سمیت چینی کوہ پیما بھی شامل ہیں۔

گوگل کا کہنا ہے کہ ان کے ایک انتظامی اہلکار ڈین فریڈنبرگ جو ماؤنٹ ایورسٹ جانے والے مہم جوؤوں میں شامل تھے ہلاک ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ میں برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں بیس کیمپ میں موجود کوہ پیماؤوں اور دیگر اراکین کا پہلے گروہ کو اتوار کو کٹھمنڈو پہنچایا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

جس وقت زلزلہ آیا اس وقت درجنوں کوہ پیماؤں کو چٹانوں میں گھرے ایک گاؤں میں تربیت دی جا رہی تھی کیونکہ انھوں نے چند ہی ہفتوں بعد چوٹی کو سر کرنے کے لیے جانا تھا۔

نیپال میں موجود آنگ شرنگ نامی کوہ پیما ایسوسی ایشن کے مطابق زلزلے کے بعد برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے 22 افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی گاؤں منتقل کر دیا گیا تھا۔
تاہم خراب موسم اور مواصلاتی نظام کے درہم برہم ہونے کے باعث ہیلی کاپٹر سروس میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اے پی کے مطابق اتوار کو 15 زخمیوں کو ماؤنٹ ایورسٹ کے قریبی ائیر پورٹ سے کھٹمنڈو منتقل کیا گیا۔تاہم حکام نے کسی بھی قسم کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا ہے اور صرف یہی کہا کہ بظاہر زخمیوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور انھیں آنے والے زخم قابلِ علاج ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں میں 12 نیپالی شرپا اور ایک ایک چینی، جاپانی اور جنوبی کوریا کا شہری شامل تھا۔

میں نے کیا دیکھا

برس ہا برس سے نیپال میں ٹورگائیڈز کی خدمات سرانجام دینے والے شرپا نامی گروہ میں سے ایک پیمبا شرپا جن کی عمر 43 برس ہے اپنے زندہ بچ جانے پر بہت حیران تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے بہت اونچی آواز سنی تھی، اور دوسری بات جو میں جانتا ہوں وہ یہ کہ میں برف کے ریلے تلے دب گیا۔
’میری آنکھ کھلی تو میں ایک ٹینٹ میں تھا اور میرے اردگرد بہت سے غیر ملکی کھڑے تھے۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا اور میں کہا ہوں۔
اس سے قبل گذشتہ سال 18 اپریل کو برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں 16 شرپا گائیڈز ہلاک ہو گئے تھے۔

کوڈنی شرپا نے زخمی حالت میں ائیر پورٹ پہنچنے کے بعد اپنے مختصر بیان میں بتایا کہ ’میں کھانا بنا رہا تھا، ہم سب زلزلے کے بعد کھلی جگہ پر دوڑ کر پہنچے اور اگلے ہی لمحے برف کی ایک دیوار میرے اوپر آگری، میں نے اس سے باہر نکلنے کی کوشش کی جو میری قبر بن سکتی تھی، میرا دم گھٹ رہا تھا، میں سانس نہیں لے پا رہا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ مجھے جینا ہوگا۔‘
لیکن جب وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی اور بیس کیمپ کا حصہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ خود تو بچ گئے لیکن انھوں نے بہت سے دوستوں کو کھو دیا۔

خیال رہے کہ 1953 سے اب تک ماؤنٹ ایورسٹ کو 4000 سے زائد کوہ پیما سر کر چکے ہیں۔ تاہم حالیہ سالوں میں اسے سر کرنے والے مہم جوؤوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 29029 فٹ یا 8848 میٹر ہے اور ہر سال یہاں کوہ پیمائی کی 30 مہمات جاتی ہیں۔
ان مشنز سے حاصل ہونے والی فیس نیپال میں سیاحت سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا اہم حصہ ہے۔
اس وقت ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی پر کم از کم ایک لاکھ ڈالر مجموعی خرچ آتا ہے۔

بشکریہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments