Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فوجی عدالتوں سے مدرسوں تک....


جو کام دن رات کے پر تکلف کھانوں اور خوشامدوں سے شروع ہوا تھا، وہ ناشتوں تک پہنچ گیا، معاملہ آئینی ترمیم پر اختلافات کا تھا جو خدا خدا کر کے بلآخر طے ہوا۔ فوجی عدالتوں کا مسئلہ ہے تو دینی مدرسوں کا بھی ہے، دونوں مسئلے مشکل ہیں، خطرناک اور گوناگوں اندیشوں سے بھرے ہوئے بھی ہیں۔ اس موقعے پر دو چار باتیں یاد آ رہی ہیں۔

ایک شوہر حسب معمول بیوی سے بہت تنگ تھا اس نے اسی غصے میں ایک دوست سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا دل کرتا ہے اپنی بیوی کو چھت سے نیچے پھینک دوں دوست نے کہا کہ پھینک دو کیا وہ بھاری ہے کہ تم سے اٹھائی نہیں جا سکتی نہیں ایسی بات نہیں شوہر نے کہا میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ بچ گئی تو پھر میرا کیا ہو گا۔ وہی بات کہ ایک شخص کسی طرح پہلوان نما آدمی کو گرا کر اس کے اوپر بیٹھ گیا اور رونے لگا یہ دیکھ کر کہا گیا کہ اب تم اسے گرا کر اس کے اوپر چڑھ کر بیٹھے ہو تو پھر رونا کس بات کا۔ تمہاری بات تو ٹھیک لگتی ہے لیکن وہ میرے نیچے سے نکل گیا تو پھر میرا کیا ہو گا۔

سیاستدانوں کی جان پر بنی ہوئی ہے کہ اس ترمیمی بل میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی شامل ہے اور یہ عدالتیں اگر انصاف پر اتر آئیں اور بلا تفریق عدل و انصاف کرنے لگیں تو پھر سیاستدانوں کا کیا ہو گا جو نہ جانے کتنے جرائم میں پکڑے جا سکتے ہیں۔ آج اگر آئینی تحفظ حاصل ہے تو کل فوجی عدالتیں بن گئیں تو پھر یہ تحفظات کہاں جائیں گے کیونکہ سیاستدان جب اوپر چڑھ کر بیٹھ بھی جائیں گے تو نیچے پڑے فوجی کی ایک کروٹ سے ہی وہ اوپر سے نیچے ہوں گے اور پھر کیا ہو گا یہ ہر سیاستدان خوب جانتا ہے۔

ہماری بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان صاف ستھرے لوگ نہیں ہیں، یہ جرائم پیشہ لوگ ہیں یعنی ان کے اکثر ایسے ہی ہیں۔ خود فرمائیے کہ قومی اسمبلی کے اندر جب وزیراعظم ساتھیوں کو ترمیم پر منا رہے تھے اور ارکان ان سے مل رہے تھے تو ایک ہڑبونگ مچی تھی اور ترمیم پر ارکان اپنی اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق بات کر رہے تھے اور صورت حال ایسی تھی کہ اتفاق رائے مشکل ہو رہا تھا۔کئی ارکان وزیراعظم سے بات کرنا چاہتے تھے کہ کوئی ایسی بات ہو گئی کہ حکومتی پارٹی کے روحیل اصغر صاحب نے اپنی ہی پارٹی کے رکن سلطان محمود کو تھپڑ جڑ دیا اس پر کئی لوگوں نے صلح صفائی کرانے کی کوشش کی وزیراعظم نے بھی روحیل اصغر سے کہا کہ سلطان صاحب کو راضی کرو مگر بات بن نہ سکی اور سلطان صاحب مایوس اور بددل ہو کر اسمبلی سے چلے گئے یعنی انواع و اقسام کے کھانوں اور ناشتوں سے بات تھپڑ کھانے تک پہنچ گئی۔

آئینی ترمیم میں اگرچہ دینی مدارس کے بارے میں بھی ایک ترمیم ایسی ہے کہ علماء کو ناگوار گزر رہی ہے لیکن فوجی عدالتوں کی بات بہت خطرناک ہے کہ کئی ارکان اسے اپنے خلاف سمجھ رہے ہیں جب کہ یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ اسے ارکان اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور لیڈروں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن پھر بھی کئی اندیشے اپنی جگہ موجود ہیں۔ وزیراعظم بذات خود فوج کے ڈسے ہوئے ہیں اور فوجی عدالتوں کو بھی شاید پسند نہیں کرتے مگر فوج فوج ہے وزیراعظم کے ماتحت سہی مگر وہ کسی وقت بھی کوئی ناگوار کروٹ لے سکتی ہے اس لیے پیش بندی ضروری ہے۔ یہاں میں یہ عرض کر دوں کہ وزیراعظم نواز شریف فوج کے خلاف ہیں یعنی فوج کے غیر فوجی کردار کے سخت مخالف ہیں۔

ان کے سیاست میں آنے سے لے کر ان کی پہلی وزارت (صوبائی) تک فوج نے جو کچھ کیا وہ انھوں نے پسند نہیں کیا اور اس کے بعد تو فوج ان کے پر سخت وار کیے بہر کیف پرانی بات سہی لیکن میاں صاحب بدستور سیاستدان اور حکمران ہیں اور فوج بدستور فوج ہے۔ جناب میاں شہباز شریف کے جرنیل صاحب سے کتنے ہی دوستانہ تعلقات ہوں کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب خون کے رشتے بھی بھول جاتے ہیں دوستیاں تو بعد کی بات ہیں حکمرانی کی سیاست میں خون کے رشتوں کی خونریزی کی داستانیں بہت پرانی ہیں ہمارے ہاں بادشاہت نہیں ہے مگر حکمرانی کی کوئی صورت بھی بادشاہت ہی ہوتی ہے جس کے نازک مرحلوں پر ہر رکاوٹ توڑ دی جاتی ہے۔

ایک اور مسئلہ دینی مدارس کا بھی ہے۔ میرا ان مدرسوں سے بہت پرانا تعلق ہے ہم چھ بھائی تھے والد صاحب نے کہا کہ میرا ایک بیٹا دینی خدمت کے لیے وقف ہو گا اور اس کی ضرورت کے لیے اس کا میری جائیداد سے حصہ کافی ہے چنانچہ میں جو سب سے چھوٹا تھا اس چھوٹے سے فیوڈل چیف کی خواہش پوری کرنے کے لیے دینی تعلیم پر لگا دیا گیا اس طرح دینی مدرسوں سے میرا تعلق بہت گہرا اور بہت پرانا ہے۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم سے اخباری سلسلے میں تعلق پیدا ہو گیا۔ ایک دن مدرسوں کی بات ہو رہی تھی کہ انھوں نے افسوس کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک عالم دوست کے کبڑے بیٹے کے بارے میں ان سے پوچھا کہ ہمارا بیٹا کیا کر رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے اسے ایک مسجد لے دی ہے چند طالب علم بھی مہیا کر دیے ہیں آگے اس کی ہمت اور قسمت ہے۔

 مولانا آزاد نے کہا کہ جن اساتذہ علماء کا اپنا یہ حال ہو اور دینی مدرسوں کو ذریعہ روزگار سمجھیں ان سے خدمت دین کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ جس طرح آج جدید تعلیم کے ادارے ایک زبردست ذریعہ روز گار ہیں اسی طرح ایک مدت سے دینی ادارے بھی ہیں لیکن استثنا ہر جگہ ہوتا ہے دیوبند بھی ایک دینی درسگاہ تھی جس کا قومی کردار ایک نمونہ ہے اور اس درسگاہ کے علماء کا ایثار اور درویشی بھی صوفیوں سے کم نہیں اسی طرح کئی دوسرے ادارے بھی ہیں اور بعض دیہات میں بھی علماء نے تبلیغ دین اور دینی علوم کے احیاء کا فرض سنبھال رکھا ہے لیکن جس بری طرح بعض علماء نے ان مدرسوں کو سیاست کے لیے استعمال کیا ہے یہ قابل قبول نہیں۔

عبدالقادر حسن

Post a Comment

0 Comments