Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جماعتِ اسلامی، فوج، امریکہ اور طالبان.....


یوں تو پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں داخلی اور خارجی مشکلات کی شکار ہیں لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کے برخلاف جماعتِ اسلامی کی مشکلات زیادہ پیچیدہ اور مختلف نوعیت کی ہیں۔

دوسری جماعتوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ ایک فرد سے شروع ہوتی ہیں اور پھر وہ فرد اور اُس کا خاندان ہی اُس کا شناختی و سیاسی محور بن کر رہ جاتا ہے۔یہ معاملہ خاصا تفصیل طلب ہے۔ لیکن جماعت اسلامی سب سے مختلف اس لیے ہے کہ اس میں مورثی سیاست اپنی جڑیں نہیں بنا سکی۔

زیر تبصرہ کتاب ’محبتوں کا سفیر، سراج الحق‘ بظاہر جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کے بارے میں ایسے انتیس مضامین پر مشتمل ہے جن میں اکثر میں ان کی خوبیوں کو بیان اور اجاگر کرنے پر زور دیا گیا ہے لیکن ان تمام مضامین کا تناظر میں جماعت اسلامی کی تاریخ اور سیاست ہے۔
سراج الحق جماعت اسلامی کے پانچویں امیر اور مولانا مودودی کے چوتھے جانشین ہیں ان سے قبل میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو چکے ہیں۔

جماعت اسلامی کے پانچویں امیر نے 9 اپریل 2014 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
جماعتِ اسلامی کا امیر خفیہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔ پانچویں امیر کے انتخاب کے لیے 30 ہزار اراکین جماعت کو بیلٹ پیپر بھیجے گئے جن میں 25 ہزار سے زائد نے رائے دہی کا حق استعمال کیا اور سراج الحق کو امیر منتخب کیا۔
ان مضامین سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جماعت کی اپنی روایت کے برخلاف اس بار کے انتخاب میں چوتھے امیر کا نام بھی شامل رکھا گیا حالانکہ منور حسن واضح طور پر معذرت کر چکے تھے۔

ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں فیصلہ کرنے والی مجلس یعنی شوریٰ یہ تاثر دینا چاہتی ہو کہ وہ اپنے انتحابی عمل میں رائج جمہوری انداز سے کٹی ہوئی نہیں ہے اور اس معاملے میں حتمی فیصلہ جماعت کے 30 ہزار کے لگ بھگ ارکین پر چھوڑنا چاہتی ہے۔

شوریٰ کے اس فیصلے کے بعد منور حسن چاہتے تھے کہ ارکان کے نام ایک خط لکھ کر اپنی معذرت ظاہر کریں لیکن شوریٰ نے انھیں ایسا کرنے سے بھی منع کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے مولانا مودودی، میاں طفیل اور قاضی حسین احمد کی معذرتوں کو قبول کیا جا چکا تھا۔

جماعت کی حکمت عملیوں اور طریقوں میں تو تبدیلیاں آتی رہی ہیں لیکن بنیادی پالیسی میں نہ تو پہلے کسی امیر نے کوئی تبدیلی ہے اور نہ ہی سراج الحق سے اس کی توقع کی جانی چاہیے۔

سراج الحق نے جماعت کے پروگراموں کے لیے نئی اصطلاحات اور دوسرے سیاسی جماعتوں کے قریب جانے کا ایسا طرزِ عمل اختیار کیا ہے جو اس تاثر کو کمزور کر رہا کہ جماعت لگے بندھے طریقوں پر سختی سے کاربند ایک ایسی جماعت ہے جس میں لچک نہیں ہے۔ حالانکہ انھوں نے صرف اپروچ میں تبدیلی کی ہے۔

پانچویں امیر کا یہ طرز عمل نیا نہیں ہے۔ اس اپروچ پر وہ تب سے کاربند ہیں جب انھیں اسلامی جمعیت کا ناظم چنا گیا تھا۔ اس کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے۔

کتاب میں شامل طیب گلزار کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ سراج الحق کے سامنے کئی چیلنج ہیں۔ 72 سالہ جماعت کو اس کی گراں بار روایات نکالنا، علم و دانش کی متاعِ گم شدہ کے حصول کو دوبارہ ممکن بنانا، ترکی اور مصر جیسے ملکوں میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھنا، فوج، امریکہ اور طالبان کے ساتھ موجودہ تعلقات کی نوعیت پر نظر ثانی کرنا شامل ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں آخری معاملہ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس کا سبب طالبان ہیں۔

جماعت اسلامی کی مشکل یہ ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف فوج کے جاری آپریشن میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ وہ واضح طور پر کس کے ساتھ کھڑی ہو۔ یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سراج الحق اس معاملے میں دو ٹوک فیصلہ کر سکیں گے یا اس فیصلے کو وقت پر چھوڑنے کی حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔

انھی پہلوؤں کی وجہ سے یہ کتاب مطالعے کے لیے خاص اہمیت اختیار کرتی ہے۔ کتاب اچھی شایع ہوئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے لیکن پروفنگ پر توجہ کی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔

انور سِن رائے

Post a Comment

0 Comments