Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ریکوڈک کا منصوبہ ، بے بس وزیراعلیٰ.....


بلوچستان شاید ہمیشہ سے ہی بدقسمت رہا ہے کیونکہ یہاں کوئی بھی حکومت ایسی نہیں رہی جس نے عوام کا مفاد پہلے سوچاہو ۔ اب جبکہ ایک بڑا منصوبہ جس کا سودا سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں ہوگیا تھا اب اس کے حوالے سے مزید نئے انکشافات اور سودے بازیاں سامنے آرہی ہیں ۔

بلوچستان میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی منمناتی حکومت کیلئے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ پر ریکوڈک جو دنیا میں کاپر (Copper)کے دس بڑے ذخائر میں شامل ہے کی فروخت اور سودے بازی میں کک بیکس (خفیہ معاہدے کے تحت رقم لینا) کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جس کی وضاحت کیلئے انہوں نے گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عالمی ثالثی عدالت برائے بین الاقوامی سرمایہ کاری میں کیس کی پیش رفت سے پیرس سے واپس آنے کے بعد فوری کیوں آگاہ نہ کیا گیا ۔ اور اب الزامات کے بعد اس کے بارے میں بتارہے ہیں۔ بقول ان کے یہ انتہائی اہم اور عوام کے مفاد کا منصوبہ ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے اس کی اہمیت اور کیس کے حوالے سے عوام کو اُس وقت تک بتانا ضروری نہیں سمجھا جب تک اُن پر الزام نہ لگ گیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ٹی تھیان کاپرکمپنی  بلوچستان منرلز رولز کی خلاف ورزی کی اور6کلو میٹر پر مشتمل ذخائر کی فزیبلٹی رپورٹ تاخیر سے جمع کرکے مائننگ کیلئے 90کلو میٹر کا لائسنس طلب کیا ۔گویا یہ بلوچستان ہے، جو بھی آتا ہے شاید حکومت یا بیوروکریسی کو دیکھ کر وہ فریب دھوکہ دہی اور ناجائز منافع کمانے پر جت جاتا ہے ۔دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق جس کا تذکرہ ایک نیوز چینل کے اینکر نے بھی کیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر بڑے ناموں نے بھی منصوبے پر کک بیکس سے فائدہ اٹھایاجو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

جبکہ ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ جیسا ارسلان افتخار نے وعدہ کیا تھا بالکل اسی طرح ان کے استعفے سے قبل کان کنی اور مالیاتی شعبہ میں سرگرم ایک آسٹریلوی ،کینڈین اور امریکی کمپنیوں کی مشترکہ کمپنی (کنسورشیم ) ریکوڈک کے سونے کی کان کیلئے نیلامی میں اپنی بولی میں تبدیلی لاکر اسے 100ارب ڈالرز تک پہنچاکر دوبارہ پیش کرنے پر غور کررہی ہے اور یہ رقم آئندہ 30سال میں ادا کی جائیگی ۔امریکی کپنی پہلے ہی ریکوڈک کے مقام سے قریب ہی ایک اورمقام پر سرگرم عمل ہے جبکہ آسٹریلوی بینک پانچ برس میں چار ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے تاکہ ریکوڈک سے سونااور تانبا نکالا جاسکے ۔

کینڈین اور چلی کی جس مشترکہ کمپنی کو سپریم کورٹ نے ریکوڈ کے پروجیکٹ سے باہر کردیا تھا اس نے پیش قیمت قدرتی ذخائر نکلنے کے بعد پچاس برسوں میں صرف 56ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا تھا یہ مشترکہ کمپنی ریفائننگ کیلئے خام مال پاکستان سے باہر لیجانا چاہتی تھی۔ اس پروجیکٹ سے باہر نکالی جانے والی ان کمپنیوں نے پاکستان کیخلاف عالمی عدالت میں ثالثی کا مقدمہ بھی دائر کررکھا تھا تاہم یہ دونوں کمپنیاں مقدمہ ہار چکی ہیں ۔

اس شو میں مزید نئے رنگ سامنے آرہے ہیں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کو بچانے کے دعویدار صوبے کے وسائل بیچنے کیلئے سب کو راضی کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے ریکوڈک کا سودا طے کرلیا ہے میڈیا کو خاموش کرانے کیلئے بھی 17کروڑ مختص کیے ہیں۔ لندن میں غیر ملکی کمپنی کے دفتر میں اعلیٰ شخصیت کے بیٹے نے تمام تر معاملات طے کرلیے ہیں ۔جن کا وقت آنے پر پردہ چاک کرونگا ۔

دوسری جانب بلوچستان کے اپوزیشن لیڈر اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ ریکوڈک کا سودانہیں کرنا چاہتے تو 13دسمبر کو کو لندن کچھ غیر ضروری لوگوں کیساتھ کس مقصد کیلئے جارہے ہیں وہ اس خوش فہمی میں نہ رہیں اگر ریکوڈک کا سودا کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک بھر میں ریکوڈک بچاؤ تحریک شروع کی جائے گی ۔

اِن تمام تر خدشات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریکوڈک نے کوئٹہ میں آفس کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا اور تمام چیزیں اسلام آباد منتقل کرکے صوبے سے بھرتی ہونیوالے ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے جنہیں کہا گیا کہ ریکوڈک کو فروخت کردیا گیا ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اندرون خانہ بہت کچھ چل رہا ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر حکومتی عہدیداروں کیلئے کڑا متحان ہے۔

کہا یہ جاتا تھا کہ جس دن اِس صوبے سے سرداروں اور وڈیروں سے اقتدار ، قوم پرستوں کو منتقل ہوجائے گا تو صوبے کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوجائیں گے مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔ کیونکہ صوبے میں قوم پرست حکومت کے آنے کے باوجود امن وامان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی بم دھماکے ،مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بدستور جاری ہے ۔ ۔۔۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے ؟ اِس کا اندازہ تو ہرگز نہیں مگر اُمید اچھی رکھنی چاہیے۔ لیکن یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ریکوڈک ہمارا قومی اثاثہ ہے ۔۔۔۔ ایک ایسا اثاثہ جس مستفید ہوکر ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے ۔۔۔۔ اِس لیے حکمرانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اِس قومی اثاثہ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے اگرایسا ہوا تو نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔

میر ہزار خان بلوچ

Post a Comment

0 Comments