Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پانچ انڈے کتنے کے ؟....وسعت اللہ خان

ساڑھے سات ارب کی اس دنیا میں وہ سولہ سو پینتالیس انسان بھی شامل ہیں جن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت چھ کھرب تیس ارب ڈالر ہے۔
بل گیٹس اور وارن بوفٹ سمیت دنیا کا ہر چوتھا ارب پتی ( چار سو باون ) کوئی امریکی شہری ہے۔

اس دنیا کی معیشت کو جو پانچ سو بڑی کمپنیاں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں کنٹرول کر رہی ہیں ان میں ہر چوتھی یا پانچویں کمپنی امریکی ہے (ایک سو اٹھائیس)۔

اس دنیا کی صرف پانچ فیصد آبادی امریکہ میں رہتی ہے لیکن اس کرہِ ارض کے 25 فیصد وسائل امریکہ استعمال کرتا ہے۔
امریکہ دنیا کی سب سے بڑی صنعتی طاقت ہے ۔ پوری دنیا کے سالانہ فوجی اخراجات اگر ایک سو روپے ہیں تو ان میں سے 37 روپے صرف امریکہ خرچ کرتا ہے۔ امریکہ آٹھ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے۔

ایک امریکی کی فی کس سالانہ آمدنی اوسطاً 53 ہزار ڈالر ہے ۔آمدنی اور معیارِ زندگی کے اعتبار سے امریکہ پانچواں بہترین ملک سمجھا جاتا ہے۔
47 سالہ ہیلن جانسن بھی اسی امریکہ کی ایک ریاست الباما کے شہر ٹارنٹ کے ایک اپارٹمنٹ میں اپنی دو بیٹیوں ، ایک اور تین برس کی دو نواسیوں اور ایک بھانجی کے ساتھ رہتی ہے۔مگر اس چھ رکنی بروکن فیملی کی زندگی کا تار ایک سو بیس ڈالر فی ہفتہ کے ویلفئیر چیک سے جڑا ہے۔
گذشتہ ہفتے انھیں یہ چیک نہیں ملا شاید ڈاک کی تقسیم میں کہیں رہ گیا ہوگا۔
دو دن فاقہ رہا۔

ہیلن جانسن آخری ایک ڈالر پچیس سینٹ لے کے قریبی جنرل سٹور پہنچی تاکہ پانچ انڈے خرید سکے۔مگر پچاس سینٹ کم پڑ گئے اور سٹور والے نے معذرت کر لی۔ہیلن نے نظر بچا کے پانچ انڈے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیے۔لیکن باہر نکلتے نکلتے گھبراہٹ میں وہ کسی شے سے ٹکرا کے پھسل گئی اور کوٹ کی جیب میں رکھے انڈے ٹوٹ گئے۔ سٹور والے نے پولیس بلا لی۔ سارجنٹ ولیم ٹریسی موقع پر پہنچا۔

ہیلن نے ایک ڈالر پچیس سینٹ سارجنٹ کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔سارجنٹ ٹریسی نے پورا واقعہ سننے کے بعد ہیلن کو شاپ لفٹنگ کے الزام میں گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے انڈوں کا پورا ڈبہ اپنی جیب سے خرید کے اس شرط پر دیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گی۔

چار دن بعد سارجنٹ ٹریسی ایک اور ساتھی کے ہمراہ ہیلن کے اپارٹمنٹ پہنچا۔ دو پولیس افسر دیکھ کے ہیلن کا رنگ پیلا پڑ گیا۔مگر یہ پولیس والے اس کے خاندان کے لیے پوری گاڑی اشیائے خوردونوش سے بھر کے لائے تھے تاکہ ہیلن کا خاندان کم ازکم کرسمس تک پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے۔47 سالہ ہیلن کا کہنا ہے کہ آخری دفعہ اس نے کھانے پینے کی اتنی چیزیں ایک ساتھ 12 برس کی عمر میں اپنی دادی کے گھر پر دیکھی تھیں۔

یہ کہانی پڑھنے سے پہلے تک میرا خیال تھا کہ امریکہ دنیا کے ساتھ جو بھی اچھا برا کر رہا ہے وہ ٹھیک ہی ہے۔اگر باقی دنیا کی قیمت پر ایک عام امریکی کا بھلا ہو رہا ہے تو سودا برا نہیں۔

مگر کیا فائدہ یوں پانچ براعظموں کو بے سکون رکھنے اور اپنا نظریہِ آزادی و معیشت ان پے مسلط کرنے کا جب الباما میں رہنے والی ہیلن چھ بچوں کو ایک وقت کا کھانا دینے کے لیے پچاس سینٹ کم پڑنے کے سبب پانچ انڈے بھی نہ خرید سکے۔

 وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments