Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بغداد سے ڈھاکا تک جنازوں کی گواہی......


خلیفہ وقت سے شدید اختلاف کے نتیجے میں جب امام احمد بن حنبل ؒ بغداد میں جیل کاٹ رہے تھے تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس آپ کی بے گناہی کی کیا شہادت اور ثبوت ہے۔ لمحہ بھر خاموشی کے بعد امام نے جواب دیا کہ ہمارے جنازے ہماری بے گناہی کی شہادت دیں گے۔ پھر اس امام وقت کی وفات جیل میں ہی ہو گئی اور چشم فلک نے تاریخ کا ایک بہت بڑا جنازہ دیکھا جو پورے بغداد میں پھیلا ہوا تھا۔ بازار بند تھے یہاں تک کہ مسجدوں کو بھی جنازے کے وقت بند کر دیا گیا۔ اس طرح اس جنازے نے امام احمد بن حنبل کی بے گناہی کا ثبوت دیا۔
بالکل ایسا ہی منظر گزشتہ دنوں ڈھاکا میں دیکھا گیا جب حضرت غلام اعظم کے جنازے میں شرکت کے لیے پورا شہر امنڈ آیا۔ اخبار میں تصویر دیکھی تو حیرت ہوئی کہ ڈھاکا کے لوگوں میں اس قدر سیاسی شعور زندہ ہے کہ وہ اپنے کسی لیڈر کی یاد میں راستوں اور میدانوں کو اپنے ہجوم سے بھر دیتے ہیں۔ کوئی 92 برس کے پروفیسر غلام اعظم کو 99 برس کی سزا دی گئی لیکن وہ یہ سزا پوری کرنے سے پہلے ہی چل بسے اور بے حس حکمرانوں کے لیے زندہ سزا بن گئے۔

انھیں1971ء میں پاکستان کی حمائت کرنے پر یہ سزا ملی تھی اور یہ ان کئی لوگوں میں سے تھے جو جیلوں میں ڈال دیے گئے کہ انھوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت پاکستان کی حمایت کی تھی۔ ہم پاکستانیوں کو سرسری سا یاد ہے کہ کچھ لوگوں نے بنگلہ دیش میں رہ کر بنگلہ دیش کو نامنظور کیا تھا اور بعد میں زندگی بھر کی یا موت کی سزا پائی تھی۔ ہم ان دنوں باقی ماندہ پاکستان کو نیا پاکستان بنا کر اپنی وزارت عظمیٰ کا جشن منا رہے تھے اور کچھ لوگ پرانے پاکستان پر قربان ہو رہے تھے۔
مجھے معلوم نہیں پروفیسر غلام اعظم کے شدید بڑھاپے کے آخری دن کس طرح گزرے لیکن پولیٹکل سائنس کے اس ماہر کو شاید امام حنبل کی بات بھی یاد آئی ہو گی یا نہیں مگر تاریخ نے ان کے ساتھ بھی اسی فیاضی کا ثبوت دیا اور ڈھاکا کو بغداد بنا دیا۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے مگر غلام اعظم صاحب کی قریباً سوسالہ زندگی جس انداز سے گزری اس پر کسی متقی امام کی زندگی کا گمان گزرتا ہے۔ ڈھاکا میں ایک دفعہ جماعت کے مخالف لوگوں نے شیخ مجیب کے نام پر اسلامی جمعیت کے طلبہ پر تشدد کیا۔ یہ زخمی طلبہ اسپتال میں داخل تھے تو میں بھی ان دوستوں کو دیکھنے چلا گیا وہاں پروفیسر غلام اعظم پہلے سے موجود تھے اور زخمی نوجوانوں کو پیار کر رہے تھے ان کے بوسے لے رہے تھے ان کے زخموں کو سہلا رہے تھے ان سے لپٹ رہے تھے اور ان کی داڑھی ان کے آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی۔

انھوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ دیکھو قادر بھائی ہمارے مہربان کتنے ظالم ہیں اور اس وقت ان کی داڑھی میں اٹکے ہوئے ان کے آنسوؤں کے ستارے میرے اوپر بھی گر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی پوری زندگی ایک مقصد کے تحت گزری۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو کسی مقصد کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں جو حال ہے وہ بیان سے باہر ہے یہاں تو قائداعظم کے پاکستان کے لوگ رشوت ستانی اور کرپشن کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ غضب خدا کا ہمارا ہر لیڈر ایک آدھ کو چھوڑ کر رشوت کے مال پر زندگی گزار رہا ہے اور اسی مال پر سیاست بھی کر رہا ہے۔ میں جب کسی بڑے لیڈر کے آس پاس ان لوگوں کو قطاروں میں دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے کردار کے بعد ان میں قوم کی قیادت کرنے کی ہمت کیسے پیدا ہوئی۔ حیرت ہے کہ کل کے ککھ پتی آج کے ارب پتی بن کر دندنا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو اس قدر تباہ کر دیا گیا ہے ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے ہم عبدالستار ایدھی کو بھی لوٹ سکتے ہیں تو اور کچھ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔

یہ وقت جو ہم پر گزر رہا ہے اس میں جان و مال کا تحفظ موجود نہیں ہے حالانکہ جب انسان نے گروہوں کو چھوڑ کر کسی منظم زندگی کو اختیار کیا تھا تو اس کا پہلا مقصد جان و مال کی حفاظت تھی لیکن آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں انسانی عزت کا جنازہ نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے چھوٹے بڑے ڈاکوؤں کا ذکر ہوتا ہے مگر میں نے کبھی کسی ڈاکو اور چور کو سزا ملتے نہیں دیکھا۔ہمارے ہاں سزا کا تصور بھی ختم ہو گیا ہے اور سزا کے بغیرکسی جرم کو روکا نہیں جا سکتا جس ملک میں سزائے موت کو ختم کر دیا جائے اس ملک میں کسی جان کا تحفظ ہو تو کیسے ہو۔ آپ قتل کر دیں پہلے تو ضمانت ہو جائے گی پھر ناکافی ثبوت کی وجہ سے معمولی سی سزا ہو گی اور یہ سزا بھی جیل میں آرام سے گزاری جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں عجیب قوانین جاری ہیں اگر ملزم پڑھا لکھا ہو تو اس کی سزا آرام سے گزرے گی اور اسے کئی سہولتیں ملیں گی یعنی ایک تعلیم یافتہ قاتل جو قتل کرتا ہے وہ قتل نہیں ہوتا لیکن ایک ان پڑھ جب قتل کرتا ہے تو وہ سچ مچ کا قتل ہوتا ہے اور اب تو قتل کی سزا ہی ختم ہو گئی ہے۔

آپ کبھی ٹھنڈے دل سے حالات حاضرہ پر غور کریں تو آپ کو ہمارے ہاں ایک ایسا معاشرہ رینگتا سسکتا ہوا دکھائی دے گا جسے دیکھ کر آپ گھبرا جائیں گے کہ کہاں پھنس گئے ہیں اور یہاں سے اب نکلیں کیسے لیکن پاکستانیوں کو زندگی اس ماحول میں گزارنی ہے ان کے لیڈروں کی طرح ان کے پاس کوئی دوسرا گھر نہیں ہے یہی پاکستان ہی ان کی پناہ گاہ ہے اور انھیں اپنی نسلوں سمیت یہیں کہیں زندگی بسر کرنی ہے اور چوروں اچکوں کو ووٹ دینا ہے اور پھر الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کو تلاش کرتے کرتے عمر گزار دینی ہے تاآنکہ ایک نیا الیکشن آ جائے۔ ہمارے لیڈر یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک عام پاکستانی زندگی کس طرح بسر کرتا ہے۔

کیا وہ اب دو وقت کھاتا بھی ہے یا نہیں اور اس کا جو گھر ہے وہ اب رہائش کے قابل رہ گیا ہے یا اس کی مرمت کی ضرورت ہے۔ ان دنوں سیلاب زدگان ہیں اور شمالی علاقوں کے بے گھر مگر ہمیں ان میں سے کوئی بھی یاد نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ کسی ایک لیڈر کو پکڑ لیں اور اس سے بہت کچھ وصول کر لیں لیکن جو لیڈر اپنے کسی مغوی بیٹے کی رقم ادا کر کے اسے رہا نہیں کراتا وہ کیا کسی سیلاب زدہ اور جنگ زدہ کی مدد کرے گا۔ کیا ہم ان حالات میں زندہ رہیں گے اور کب تک؟ پھر صحرائے تھر کے پاکستانیوں کا ذکر ہی کیا جو سال بھر قحط کی حالت میں سسکتے ہیں اور ہم خوشحال پاکستانیوں کی خیرات کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کا جنازہ ہوتا ہے یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں لیکن ہم خوشحال پاکستانیوں کا جنازہ شاید درست ہی نہ ہو اور ہماری کسی بے گناہی کی شہادت تو دور کی بات ہے۔

عبدالقادر حسن

Post a Comment

0 Comments