Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایک کتاب جس کی تقریب رونمائی نہ ہو سکی


ملالہ کی کتاب ــ’’I Am Malala‘‘کچھ ماہ پہلے شائع ہو چکی۔ اُس کتاب میں کیا کچھ اسلام اور پاکستان کے خلاف لکھا گیا وہ بھی سب کے سامنے آچکا۔ سب سے اہم یہ کہ اس کتاب میں سلمان رشدی جیسے ملعون کی انتہائی شر انگیز اور اسلام دشمن کتاب (Satanic verses)کوآزادی رائے کے حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ایسی کتاب کی پاکستان میں تقریب رونمائی کرنا اور وہ بھی پشاور جیسے علاقہ میں میری نظر میں کسی شرارت سے کم نہ تھی۔

صوبہ خیبر پختون خوا تو پہلے ہی سنگین دہشتگردی کا شکار ہے۔ ’’I Am Malala‘‘ جیسی متنازعہ کتاب کے لیے تقریب رونمائی منعقد کرنا اور وہ بھی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ میں وہ کسی خطرہ سے کم نہ تھا۔اس تقریب کو سیکیورٹی فراہم کر کے محفوظ تو بنایا جا سکتا تھا مگریہ عمل اشتعال انگیز تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے دہشتگردی میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔

سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ کیا ایسی کتاب کی پاکستان کے کسی بھی حصہ میں تقریب رونمائی کی جاسکتی تھی مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اس کام کے لیے پشاور کو چن لیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے معاملہ کی نذاکت کو دیکھتے ہوئے اس تقریب کے انعقاد کو روک کر بہت اچھا فیصلہ کیا مگر میڈیا اس پر لال پیلا ہو گیا۔ ہر طرف شور شرابہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب نے تحریک انصاف کی حکومت کو خوب کوسا اور انہیں بُرا بھلا کہا۔ میڈیا کا یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عمران خان کو بھی معذرت خوانہ رویہ اختیار ادا کرنا پڑا۔ وہ ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت سے نالاں نظر آئے۔

مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان نے ملالہ کی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں مگر میڈیا میں شور شرابا کرنے والوں میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ دیکھنے اور سننے والوں کو یہ بتائے کہ اس کتاب میں کیا کچھ لکھا گیا، کس انداز میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب آزادی رائے کے حق کے طور پر برداشت کرنے کاسبق پڑھایا گیا، کیا کچھ ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں کہا گیا، عورتوں کی گواہی کے بارے میں کیا رائے زنی کی گئی، پاکستان کو کس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے تو بہت افسوس ہوا کہ ملالہ یوسف زئی کو اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کر لیا گیا۔میں تو اس کتاب اور اس سے منسلک تنازعات پر پہلے ہی کچھ کالم لکھ چکا۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے یہ کتاب تو لکھی ہی مغرب کے لیے گئی تھی جس کا مقصد ہی مغرب کو خوش کرنا اور پاکستان اور اسلام کے بارے میں منفی پیغام دینا تھا۔

اس کتاب میں تو بار ہا پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کا ذکر کیا گیا مگر ایک بار بھی Prophet یا Holy Prophet کے ساتھ PBUH یا SAW نہیں لکھا گیا۔ ایسی کتاب کا ہمارے سے کیا تعلق۔ اس کتاب سے منسلک تنازعات جب چند ماہ قبل سامنے لائے گئے تو ملالہ کے والد نے حامد میر صاحب کو فون کر کے بتایا کہ وہ اس کتاب کے متنازعہ حصوں کو حدف کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو تو بہت اچھا مگر جس کتاب کو میں نے پڑھا اور جس کو پاکستان مخالف کرسٹینا لیمب نے لکھا وہ اس قابل نہیں کہ اُسے ہمارے بچے پڑھیں۔ مگر میڈیا نے ویسے تو کتاب کے متنازعہ حصوں کے بارے میں عمومی طور پر عوام کواندھیرے میں رکھا مگر اس بات پر خوب شور مچایا کہ کتاب کی تقریب رونمائی کی خیبر پختونخوا حکومت نے اجازت کیوں نہ دی۔ میڈیا نے جس انداز میں اس معاملہ کو اٹھایا اور جیسے سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا گیا اُس سے یہ ممکن ہے کہ اب کچھ اور لوگ، کچھ اور تنظیمیں اور کچھ اور این جی اوز ملالہ کی کتاب کی رونمائی کی لیے پشاور اور کچھ دوسرے شہروں میں منعقد کرانے کی کوشش کریں۔ شرارت کے لیے یہ اچھا تماشہ ہو گا اور اس نوعیت کی تقاریب منعقد کرنے والوں کو بھی خوب مفت کی پبلسٹی ملے گی۔ ایسے میں ڈالرز اور امریکا و یورپ کے ویزے بھی ملنے کا خوب موقع ملے گا۔ باقی رہا عقیدہ، ایمان، اسلام اور پاکستان، اُس کی کسی کو کیا فکر۔ فکر ہے تو اُس نام نہاد حق آزادی رائے کی جس کو بنیاد بنا کر آئے دن مغرب اسلام دشمن مواد شائع کرتا ہے تا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی جائے۔ اور اس کے رد عمل میں اگر مسلمان احتجاج کریں تو انہیں شدت پسند اور عدم برداشت ہونے کے طعنہ دیے جائیں۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments