Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

Overseas Pakistanis

 

 

Overseas Pakistanis

ویسے توعدلیہ کے ایک فیصلے نے بیرون ملک مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو تو عملاً پاکستان کے سرکاری، سیاسی اور عوامی نظام سے بے دخل کر دیا ہے مگر ہر سال ان کی محنت سے کمائے ہوئے بارہ تا پندرہ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کو پاکستان کا نظام چلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی ایک خوب تماشا ہے کہ جب کسی سیاسی قائد کو جلا وطن کیا جائے یا وہ اقتدار سے محروم ہو جائے بلکہ دوران اقتدار و اختیار بھی اگر وہ بیرون ملک کسی دورے پر آئیں تو وہ ایسے پاکستانیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں جو ان کے اعزاز میں دعوتیں کریں، لنچ اور ڈنر کر کے دوستوں کے اجتماعات کریں، تصاویر کھنچوائیں اور تقاریر کروا کر ان کو عزت و توقیر دیں۔ یہی حال سرکاری حکام اور ان کے ریٹائر ہونے کے بعد امریکہ و کینیڈا میں مستقل قیام کے خواہشمندوں کا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ایک محب وطن شہری کے حقوق و فرائض کے بجائے ہر طرح کے فرائض تو لازم قرار دے دیئے مگر ان کے حقوق اور حب الوطنی کی صرف زبانی تعریف اور انہیں ’’پاکستان کے سفیر‘‘ کا خوش کن خطاب دیکر ذمہ داری ادا کر دی جاتی ہے اور پھر جب وہ پاکستان میں پلاٹ یا جائیداد خریدیں، سرمایہ کاری کریں یا اپنے بچوں یعنی نئی نسل کو پاکستان سے وابستہ کرنے کے لئے پاکستان لے کر آئیں تو قبضہ گروپ اور کرائم مافیا ان کی جائیدادوں پر قبضہ، اغوا، جعلی دستاویزات، بدعنوان حکومتی ملازمین کو رشوت دیکر ان سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ایک الگ اور المناک داستان ہے۔

کتنے ہی پاکستانیوں نے بیرون ملک محنت سے کمائی کر کے پاکستان میں جائیدادوں کی خریداری کی اور وہ اپنی کمائی جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ لٹا بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اوورسیز پاکستانی اپنوں کی زیادتی اور ظلم سہنے کے علاوہ غیروں کے ہاتھوں بھی اپنے پاکستانی ہونے کی جو سزا پاتے ہیں اس کی تازہ مثال ملاحظہ ہو۔ امریکہ میں آباد اور امریکی شہریت اور پاسپورٹ کے حامل پاکستانی نژاد افراد کو امریکی شہری ہونے کے باوجود آپ کا پڑوسی ملک بھارت ویزا نہیں دیتا ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت کو منسوخ کرنے کا سرٹیفکیٹ یعنی ثبوت پیش کریں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت کا ویزا حاصل کرنے کیلئے درخواست دینے والے تارکین وطن کو بھارت کا ویزا حاصل کرنے میں کئی ماہ تک غیر یقینی حالت میں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی اکثر ویزا نہیں ملتا۔ گزشتہ ستمبر نیویارک میں وزیر اعظم نوازشریف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات کے موقع پر بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید بھی آئے ہوئے تھے۔

پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم کے عہدیداروں کا ایک وفد سلمان خورشید سے ملا اور کہا کہ امریکہ میں آباد پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کا ایک بڑا گروپ بھارت کا دورہ خیر سگالی کرنا چاہتا ہے۔ نہ سیاست کرنا ہے نہ کوئی ایجنڈا ہے۔ خیر سگالی کے اس اظہار کیلئے بھی وہی اعتراض سامنے آیا کہ امریکی پاسپورٹوں والے ڈاکٹر حضرات کو بھارتی ویزا لینے کیلئے اپنی پاکستانی شہریت منسوخ کئے جانے کا ثبوت بھارتی قواعد کی لازمی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سے عرض کی گئی کہنے اور سننے کو ہے۔ 11ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ملوث اور ذمہ دار قرار پانے والوں میں پاکستانی کوئی نہ تھا مگر آج بھی تخریب کاری اور دہشت گردی کے ذکر کے ساتھ ہی پاکستان کا نام چپک کر رہ گیا ہے۔ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی اکثریت صرف اپنی پاکستانی شناخت کی بدولت گزشتہ بارہ سال کے دوران بڑی آزمائش سے گزری ہے اور انہی پاکستانیوں کو دہری شہریت کا طعنہ دے کر پاکستان نے اپنے سیاسی و سرکاری نظام کے تمام دروازے قانوناً ان پر بند کر دیئے ہیں۔

پاکستانی نژاد اپنے امریکی یا کینیڈین پاسپورٹ کے ساتھ بھی جب سفر کرتے ہیں تو پیدائش کے خانے میں پاکستان کے ساتھ ہی بہت سے ممالک میں خصوصی نگاہوں کا مرکز بننا پڑ جاتا ہے۔ بھارت سرکار کی تو یہ قانونی اور امتیازی پالیسی ہے کہ وہ امریکی پاسپورٹ پر بھی پاکستانی نژاد لوگوں کو بھارت کا ویزا نہیں دیتے۔ حالانکہ یہ نسلی امتیاز بداخلاقی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایک تازہ اور تلخ حقیقت سنئے۔ امریکہ میں آباد پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی مشہور تنظیم ’’اپنا‘‘ نے بھارت کے دورہ خیر سگالی اور سیاحت کا پروگرام بنایا کہ دسمبر2013ء میں ’’اپنا‘‘ کے موسم سرما کا سالانہ اجلاس کراچی میں ہوگا لہٰذا اس میں شرکت کرنے والے ممبران پہلے بھارت کا 10روزہ دورہ خیر سگالی اور سیاحت کریں گے۔ 13تا23دسمبر بھارت میں گزار کر پھر پاکستان کے ’’اپنا‘‘ کے اجلاس میں شرکت اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد واپس امریکہ آ جائیں گے ۔’’اپنا‘‘ کے عہدیدار اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سے بھی ملے جو اپنے بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ اور نواز شریف من موہن ملاقات کے سلسلے میں نیویارک آئے ہوئے تھے۔

ان اعلیٰ تعلیم یافتہ متوازن سوچ سمجھ والے پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کو بھارتی ویزا جاری کرنے کیلئے وہی مسئلہ کھڑا ہوا کہ یہ تمام حضرات بھارتی قاعدے کے مطابق اپنی پاکستانی شہریت ترک کرنے کا ثبوت پیش کریں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس بارے میں کوئی وعدہ کئے بغیر جو ممکن ہو گا کریں گے کا وعدہ کر لیا۔ تقریباً 200پاکستانی نژاد ڈاکٹروں نے گروپ کی صورت میں بھارتی ویزا کیلئے درخواستیں دیں مگر بھارتی حکام کی جانب سے ایسا رویہ رہا کہ ’’اپنا‘‘ نے نومبر کے آخر میں اپنے ممبران سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ممبران کو متبادل طور پر اپنی تعطیلات گزارنے کی چھوٹ دے دی گویا بھارت کا دورہ اور 200ڈاکٹروں کے سفر کے انتظامات وغیرہ پر اوس پڑ گئی۔ یہ تو غنیمت ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کی خصوصی دلچسپی کے باعث ان ڈاکٹروں کو پاکستانی شہریت ترک کرنے کا ثبوت فراہم کرنے سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔ یہ تو غیروں کا سلوک ہے اب ذرا دہری شہریت اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ اپنوں کے سلوک کی مختصر سی تفصیل ملاحظہ ہو۔ یہ بے چارے غیر ملکوں میں محنت کی کمائی لے جا کر پاکستان میں پلاٹ زرعی زمین اور جائیدادیں خریدتے ہیں تو پاکستان جرائم مافیا کے گروہ ،کرپٹ سرکاری افسروں کے ساتھ مل کر ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

جعلی دستاویزات، مقدمات کے ذریعے جائیداد پر قبضہ، اغوا برائے تاوان ،سیاسی رشوت ستانی حفاظت، دھوکہ فراڈ اپنی جائیداد اور اثاثوں سے محرومی کی ہزاروں حل طلب داستانیں اور حقائق موجود ہیں۔اپنی بہترین صلاحیتوں اور کارکردگی کے ساتھ یہ پاکستانی امریکہ ،برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا ، یورپ سمیت ہر جگہ وہ نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دیتے ہیں۔ صدر اوباما نے حال ہی میں ملتان کے ایک پاکستانی نوجوان کو قابل فخر سرمایہ قرار دیا مگر یہ پاکستانی اپنے آبائی وطن کے لئے ایک غیر ملکی اور بے کار ہیں۔ جی ہاں، یہ ہر سال بارہ ارب ڈالرز پاکستان ضرور بھیجیں، یہ ان کا فرض ہے۔ ان ڈالروں سے پاکستان کا فرسودہ بیورو کریٹک نظام چلایا جائے گا لیکن اس نظام کے چلانے، سنوارنے اور اس میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف اپنا وعدہ پورا کر کے قانونی ترمیم کریں اور دہری شہریت والوں کا حق دیں۔

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

عظیم ایم میاں

 
 
Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments