Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بس تھوڑے دن کی تو بات ہے

 

 

 

بس چند دن ہی کی تو بات ہے۔ سب ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گا۔ وزیرِ اعظم کو جنات کے ہاتھوں انسانوں کے غائب ہونے پر حیران ہونے کی اداکاری اور ’میرا دل ان کے چہرے دیکھ کے خون کے آنسو روتا ہے‘ جیسے ڈائیلاگ بولنے سے نجات مل جائے گی۔

سابق حزبِ اختلافی پاٹے خان اور حسبِ ضرورت وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف بٹ کو مائی باپ نے بہت محنت سے پینتیس کا جو پہاڑہ رٹوایا ہے وہ مائی لارڈ کو اٹک اٹک کر نہیں سنانا پڑے گا کہ پینتیس میں سے دو تو دورانِ حراست پرامن موت مر گئے۔ باقی بچے تینتیس۔ تینتیس میں سے دو قید میں ہیں۔ باقی بچے اکتیس۔ اکتیس میں سے ایک سعودی عرب چلا گیا، آٹھ افغانستان بھاگ گئے، تین وزیرستان روانہ ہوگئے۔ پانچ کے بارے میں مصدقہ معلومات نہیں اور سات کے بارے میں قسمے خدا دی کوئی پتہ نئیں کہ کتھے گئے۔ یہ ہوگئے کل ملا کے اٹھائیس۔ اب بچ گئے پینتیس میں سے سات۔ تو میں ان سات کو چودہ بنا کے عدالت میں پیش کر رہا ہوں بس چہروں سے چادریں نا ہٹوائیےگا آپ کی بڑی مہربانی۔

مگر بٹ صاحب آپ یہ تفصیل پہلے روز بھی تو دے سکتے تھے۔ اپنا اور عدالت کا اتنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مالاکنڈ حراستی مرکز کا سپرینڈنڈنٹ عطا اللہ تو حلفاً کہتا ہے کہ اس کے پاس جو چھیاسٹھ قیدی تھے ان میں سے آرمی پینتیس لے گئی۔

جی نہیں مائی لارڈ نہ عطا اللہ جھوٹ بول رہا ہے، نہ میں اور نہ فوج اور انٹیلی جینس والے۔ عطا الے سمیت ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا سچ بول رہا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جھوٹ کی چادر بے جوڑ ہوتی ہے اور سچ ٹکڑے ٹکڑے جمع کر کے سینا پڑتا ہے۔ یقین کریں میں یہ بات پوری سچائی سے کہہ رہا ہوں۔

بس کچھ دن اور۔۔۔۔عدلیہ کی آزادی کے سابق ہیرو اور حالیہ اٹارنی جنرل منیر ملک کو عدالت میں ادھر ادھر یا اوپر نیچے دیکھ کر بات نہیں کرنی پڑے گی ۔چئیر اپ ملک صاحب۔ آپ پہلے ہی گردے کے مریض ہیں۔

نا ہم سمجھے نا آپ آئے کہیں سے

پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے

اور آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد صاحب آپ بھی دل چھوٹا نہ کریں۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں یونہی مریض بنے لیٹے رہیں۔ ہاں ٹوئٹر سے کھیلنے پے کوئی پابندی نہیں۔ ایسی تصاویر ٹوئیٹ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ لاپتہ افراد کا چیمپئن ماما قدیر آزاد بلوچستان کا فوٹو شاپ جھنڈا اٹھائے کیک کاٹ رہا ہے۔ ایسے ٹوئٹرز سے نہ صرف عزم کا پتہ چلتا ہے بلکہ مریض کا دل بھی بہلا رہتا ہے۔ آپ سے پہلے والے والے افسر بھی ڈی آئی جی کوئٹہ کی گواہی اور لوگوں کو غائب کرنے کے ویڈیو ثبوتوں کے باوجود طلبی کے سمنوں کو ٹائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ بارہ دسمبر کو آپ بھی ہسپتال سے ڈسچارج ہو جائیےگا۔ اللہ خیر کرے گا۔

اور چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعروں سے گلا بٹھانے والے اے پیارے وکیلو۔ جاتے جاتے سے خفا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب کوئی بھی آپ سے کلائنٹس اور ججوں کو بے عزت کرنے اور گالی گھونسے مکے لات کی آزادی نہیں چھین سکتا۔ ویسے بھی انصاف کا گھی سیدھی انگلیوں کب نکلا۔ لہٰذا دل پے پتھر رکھ کر ہی سہی بس چند دن کے لیے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر لیں۔

یقین کیجیے یہ چیف ضرور کہلاتے ہیں مگر وہ والے چیف نہیں جن کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو سکے اور اس بات پر اب آپ سمیت تمام مکاتیبِ سیاست و عسکریات متفق علیہ اور خوش ہیں۔ ان والے چیف کے بارے میں تو یہ خوش گمانی بھی نہیں کہ ٹرکوں پر تصویر بنے گی اور پھر اس تصویر پر کوئی کفیل بھائی رائٹ آرم لیف آرم باؤلر گھوٹکی والا یہ مصرعہ پینٹ کرے گا کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔

بارہ دسمبر کو بھی بلوچستان کے دھول زدہ پہاڑوں میں بغیر نمبر پلیٹ کی کالے شیشوں والی گاڑیاں شکار پے نکلی ہوئی ہوں گی۔ خیبر پختون خواہ کے کسی تفتیشی مرکز میں بکرے الٹے لٹکے ہوں گے۔ اسلام آباد کی کسی پرشکوہ عمارت کے ڈائننگ ہال میں لذیذ کھابے اتر رہے ہوں گے۔ قریب کے کسی ای یا ایف ٹائپ گھر میں کسی میگا پروجیکٹ کی ڈیل حسبِ اطمینان طے ہونے کے بعد باچھیں چوڑی ہو چکی ہوں گی۔ آب پارہ کی کسی بے نام بلڈنگ کے کاریڈور میں قطرہ قطرہ مسکراہٹ برس رہی ہوگی ۔ وزیرِ دفاع کئی دن بعد ایک اچھی نیند سے بیدار ہوں گے۔ اٹارنی جنرل ایک عرصے بعد نصف شب کے بجائے سرِ شام دفتر سے گھر خوش خوش لوٹیں گے۔

لاہور کے صوبائی سیکریٹیریٹ میں قومی فیصلے ہو رہے ہوں گے۔ قبائلی علاقے میں کچھ مقامی علما سرکاری قاصد بنے میران شاہ کی طرف رواں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسی گاڑی بھی ان کی فور وھیلر کو کراس کرے جو بارود سے بھری ہو۔ اندرونِ سندھ کے کسی دور دراز گاؤں میں کوئی لڑکی ریپ ہو چکی ہوگی۔ کراچی میں ایک نیا پولیس مقابلہ دکھانے کی تیاری مکمل ہوگی۔ ماما قدیر پریس کلب کے باہر کی فٹ پاتھ پر غائبین کا تصویری سٹال پھر سے سجا رہا ہوگا۔

بارہ دسمبر میں دن ہی کتنے بچے ہیں۔۔۔دو تین چار ۔۔بسسسس۔۔۔۔؟؟

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments