Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہم ’زندگی‘ کے مسافر ہیں یا ’موت‘ کے ؟



آج صبح صبح ایک دوست نے اطلاع دی کہ اُن کے ایک دوست جو اپنے والد کے حالتِ نزع میں ہونے کی خبرسن کر اُن کو دیکھنے گئے تھے، انتقال کرگئے، جب کہ اُن کے والد کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔یہ خبر سنتے ہی طائرِ خیال کسی طیارے کی طرح پرواز کرتاہوا ماضی کی ایک صبح میں جالنگرانداز ہوا۔اُس روز ہم نے اخبار میں ایک عجیب خبر پڑھی۔یہ ذکر ہے 2008ء کا۔خبر کچھ یوں تھی:
’’ پی آئی اے کی پروازPK352 اتوار20؍اپریل کی دوپہر ڈھائی بجے کراچی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئی۔سہ پہر تین بج کر تینتالیس منٹ پر جب طیارہ کوئٹہ ائر پورٹ پر اُتر رہا تھاتوکپتان سلیم الدین پر اچانک دِل کا دورہ پڑگیا۔اُن کی حالت غیر ہوگئی۔تاہم وہ طیارے کو بحفاظت اُتارنے میں کامیاب ہوگئے۔کپتان سلیم الدین کو ہنگامی طورپر کمبائنڈملٹری ہسپتال کوئٹہ پہنچایاگیا، جہاں اُنھیں انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں رکھاگیا ہے۔یہی پرواز کوئٹہ سے اِسلام آباد بھی جانے والی تھی۔ کوئٹہ اِسلام آباد پرواز منسوخ کردی گئی۔ مسافروں کو پیر21؍اپریل کی دوپہر براستہ کراچی اِسلام آباد پہنچایا گیا‘‘۔
کراچی میں تو شاذ ونادر ۔۔۔ مگر دیگر پُرامن شہروں میں لوگوں نے اکثر آسمان پراُڑتے ہوئے پرندوں کوضرور دیکھاہوگا۔ اُڑنے کے دوران میں کبھی وہ اپنے پرسمیٹ لیتے ہیں کبھی پھیلالیتے ہیں۔رحمٰن کے سواکون ہے جو اُنھیں تھامے رکھتاہے؟مگر ہوائی جہاز کے متعلق یہی سمجھا جاتاہے کہ کپتان کے سواکون ہے جو اُسے تھامے رکھتاہو؟ لوگوں نے یہ منظر شاید شدید حیرت سے دیکھا کہ اِس پرواز کے مُسافر کامل ایک دِن کی تاخیر سے اِسلام آباد پہنچنے کے باوجود پی آئی سے خفا ہونے کی بجائے خداکاشکر اداکررہے تھے۔ اور دُعاکررہے تھے کہ اﷲ کپتان سلیم الدین کو صحتِ کاملہ عاجلہ عطافرمائے۔ بات بس اتنی سی تھی کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت نہیں آیاتھا۔ اﷲ نے کپتان سمیت سب کو بچا لیا۔
بزرگ کہتے تھے کہ ہرکام میں اﷲ کی مصلھت ہوتی ہے۔ اﷲ کی مصلحتیں ضروری نہیں کہ بندے پر کھل ہی جائیں۔ مگر جب کھلتی ہیں توآنکھیں ہی نہیں دِل کے دریچے بھی کھول دیتی ہیں۔بشرطے کہ گوشِ نصیحت کے دریچے کھلے ہوئے یعنی۔۔۔ ’’نیوش‘‘۔۔۔ ہوں!
ہم کٹھمنڈوجانے والی وہ پرواز کبھی نہیں بھول سکتے۔ جس سے ہمارے ایک محتاط دوست اپنی تمام تر تیاریوں کے ساتھ ایک ’’اہم موقع‘‘ کے حصول کے لیے نیپال جانے والے تھے۔ احتیاطاً قبل ازوقت گھر سے نکلے ۔ مگرراستے کے ٹریفک جام میں اِس بُری طرح پھنسے کہ بمشکل پرواز کی روانگی کے عین مقررہ وقت پر ائرپورٹ کی حدود میں داخل ہوسکے۔ لاؤنج میں داخلے کے ابتدائی مراحل بھاگم بھاگ اور خلافِ عادت ومزاج بڑی افراتفری میں طے کیے۔مگر جب کاؤنٹر پر پہنچے تو اطلاع ملی کہ :
’’ صاحب ! جہازتو بالکل ابھی ابھی روانگی کے لیے پیچھے دھکیلا جاچکاہے۔Push Back ہوگیاہے۔ آپ انتہائی تاخیر سے آئے ہیں۔آپ کے لیے محفوظ کردہ نشست خالی گئی ہے‘‘۔
تاخیر سے بچنے کے لیے اپنی تمام تراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود پرواز چھوٹ جانے پر وہ اپنی قسمت سے حددرجہ مایوس اورملول تھے۔ کہتے تھے کہ:’’مُجھ جیسا بدنصیب شخص رُوئے زمین پر شاید ہی کوئی ہوگا‘ کہ جس کے ہاتھ آیا ہوا موقع یوں ہاتھ سے نکل جائے‘‘۔
مگرکٹھمنڈو ائرپورٹ پر اُترنے سے قبل ہی جہاز گرکرتباہ ہوگیا۔جب یہ خبرملی تو وہ اپنے آپ کودُنیا کا خوش قسمت ترین فرد تصور کررہے تھے۔
بے شک جان کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ خودکشی حرام ہے۔ اپنی جان کوہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی چھت پر سوتا ہے کہ جس پر کگرنہیں بنائی گئی ہے، جواِسے حالتِ خواب میں گرجانے سے محفوظ رکھ سکے تو اﷲ ایسے غیرذمہ دار شخص کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیتا۔مگر عتبہ بن ابوجہل کی طرح یہ سمجھ لینا کہ انسان اپنی ’’سیکیورٹی‘‘ کی مدد سے اپنی موت کاراستہ بھی روک لے گا(جس کادِن اور وقت ہی نہیں، موقع اور مقام بھی متعین ہے) عقیدے ہی نہیں تجربے اور مشاہدے کے بھی خلافہے۔ہم یہاں اُن متعدد واقعات کو دوہرانا نہیں چاہتے جن میں دیکھا گیا کہ جس’ ’ایک فرد کی جان کی حفاظت‘‘ کی خاطر ہزاروں جانوں سے کھیلا گیا،مگرجب ’’وقت‘‘ آپہنچا تواُس کی جان لاؤ لشکر کی موجودگی اورمحفوظ قلعوں کی حفاظت وحراست میں بھی کتنی آسانی سے چلی گئی۔
حیرت ہوتی ہے کہ خلاؤں میں چہل قدمی کرنے والوں، سمندرکی تہوں میں اُترجانے والوں، موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والوں اور جمناسٹک دِکھانے والوں کوتو موت سے خوف نہیں آتا۔مگر موت کا خوف سوار رہتاہے تو اُن لوگوں کے اعصاب پر کہ جوجاں باز و جاں نثار اور کمانڈو ہونے کے دعویدار ہوں۔ اوروہ جودُنیا کی واحد ’’سُپر پاور‘‘ ہونے کے دعویدار ہوں۔ کیا اُن کو اتنی سی بات نہیں معلوم کہ وہ دوسروں کو ہلاکت میں ڈالنے والی اِن تدابیر سے وہ اپنی طبعی موت کا راستہ روک سکتے ہیں نہ اپنے فطری زوال کا۔
سیدنا عُمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ ایک ایسی عظیم پاور کے سربراہ تھے جس کی حدیں مصری ،فلسطینی،ایرانی اورساسانی سرحدوں کو عبور کرتی چلی جارہی تھیں۔ مگر دیکھیے کہ وہ کبھی کسی سنسان مقام پر ایستادہ درخت کے نیچے اینٹ کاتکیہ لگا کر سو جاتے۔ کبھی’ محض ایک خادم‘ کی مشایعت میں یروشلم کے طُول طویل سفرپربغیر سیکورٹی اور بے لاؤ لشکر روانہ ہوجاتے۔ تاہم جب اﷲ کامقررکیاہواوقت آپہنچاتو خوداپنے ایوانِ حکومت (مسجدِ نبویؐ) کی محراب کے اندر نمازِفجر کی امامت کے محفوظ ترین موقع و مقام پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
وہ بھی (ہمارے لڑکپن کی) ایک یادگارصبح تھی۔جس صبح ہم نے اخبار میں ایک عجیب خبر پڑھی۔غالباً یہ 1967ء کا قصہ ہے:
گزشتہ شب کراچی سے ہالہ جانے والی بس قومی شاہراہ پر طوفانی رفتارسے دوڑی چلی جارہی تھی کہ ڈرائیورکے اچانک بریک لگادینے پر گاڑی پہیوں کی دلخراش چنگھاڑ کے ساتھ ایک جھٹکے سے رُک گئی۔سوتے ہوئے مسافر ہڑبڑاکر جاگ اُٹھے۔ ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرکے کہا:’’پیچھے جوسفید پوش بزرگ گاڑی کو ہاتھ دے رہے تھے اُن کو بلاکر بس میں بٹھالو‘‘۔
کنڈیکٹر نے نیچے اُتر کر پیچھے دیکھا ۔مگر اُسے دُور دُور تک کوئی نظر نہیں آیا۔بس میں واپس چڑھ کر اُس نے ڈرائیور سے پوچھا کہ:
’’مجھے تو کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ تُم کس بزرگ کی بات کررہے ہو؟‘‘
مگر جب ڈرائیورکی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اُس نے مُڑ کر ڈرائیور کی طرف دیکھا۔ وہ اسٹیئرنگ پر سر رکھے سورہاتھا۔ کنڈیکٹر نے قریب پہنچ کر اُسے جھنجھوڑا تو پتا چلا کہ ابدی نیند سوچکاہے‘‘۔
موت کے فرشتے کوشاید اُس بھری پُری فراٹے بھرتی بس میں سے صرف ایک ہی شخص کی رُوح قبض کرنے کا حکم ملاتھا

Abu Nasar
Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments