Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا شام میں واقعی روس کے ارادے خطرناک ہیں ؟

روس زمین سے فضا میں مار کرنے والے اپنے جدید ترین ایس 300 میزائلوں کو شام کو فروخت کرنے کی بات گزشتہ ایک دہائی سے کر رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس میں ایک عنصر تو اسرائیل کی سفارتی کوششوں کا ہے اور دوسرا شام میں اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی فضائی کارروائیوں سے روس کی لاتعلقی۔ لیکن روس اب ایسے اشارے دے رہا ہے کہ شام پر اسرائیل کے فضائی حملے اس کی حکمت عملی کے خلاف ہیں اور اس کی اسرائیل اور شام کے معاملات میں غیر جانبداری کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ سنہ 2011 میں پہلی مرتبہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ روس اپنے جدید ترین میزائلوں ایس 300 کی چار بیٹریاں شام کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

ہر بیٹری چھ لانچ وہیکل یا میزائل داغنے والے ٹرک پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ نگرانی اور نشاندہی کرنے والے راڈار اور ایک کمانڈر پوسٹ بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ دفاعی نظام انتہائی جدید اور متحرک سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے شام کی دفاعی صلاحیتوں میں کوئی انقلابی اضافہ نہیں ہو گا۔ شام کے پاس پہلے ہی ایسے میزائل موجود ہیں جو وہی کام کرتے ہیں جو روسی میزائل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب یہ روسی میزائل شام کی دیگر میزائل بیٹریوں اور راڈاروں سے منسلک ہو جائیں گے تو اِس کا فضائی دفاعی نظام اور زیادہ موثر ہو جائے گا۔
ایس 300 میزائلیوں کے علاوہ روس کا ارادہ ہے کہ وہ شام کے فضائی دفاعی کمانڈ پوسٹ کو خود کار نظام مہیا کرے جو روس کے وزیر دفاع سرگئی شاواگو کے الفاظ میں اس بات کو یقنی بنائے گا کہ شام کی تمام ایئر ڈیفنس تنصیبات اور فضائی نگرانی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کا نظام ایک مرکز سے کنٹرول ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ روس کی فضائیہ کے فضا میں موجود تمام جہازوں کی نشاندھی بھی یقینی ہو جائے گی۔ یہ بات شام کے موجودہ فضائی نظام میں پائی جانے والی خامی کا ایک طرح سے اعتراف بھی جس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کی طرف سے ایک فضائی حملے کے دوران روس کے نگرانی کرنے والے جہاز الیوشن 20 کو حادثاتی طور پر نشانہ بنا کر تباہ کر دیا تھا۔ روس واضح طور پر شام کے ایئر ڈیفنس پر اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا وہ واقعی اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی فضائی کارروائیوں کا سدِباب کرنا چاہتا ہے۔
سرگئی شاواگو نے مزید کہا ہے کہ بحیرہ احمر کے شام سے متصل کچھ حصوں پر سٹلائٹ سے نگرانی، راڈاروں اور شام پر حملہ آور ہونے والے لڑاکا طیاروں کے مواصلاتی نظام کی ریڈیو الیکٹرانک جامنگ بھی کی جائے گی۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شام روس میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن ماسکو سے اس ضمن میں متضاد بیانات اور اشارے مل رہے ہیں۔
روس کی وزارت دفاع نے اپنے فضائی نگرانی کرنے والے جہاز کو نشانہ بنائے جانے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اور اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کے طیاروں نے شامی فوج کے ایک اڈے کو نشانہ بنایا تھا جہاں لبنان کے شیعہ مسلح گروہ حزب اللہ کو ایران کی طرف سے اسلحہ بنانے والی مشینین پہنچائی جا رہی تھیں۔ اسرائیل نے مزید کہا تھا کہ جس وقت روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا اس کے طیارے اپنی کارروائی مکمل کر کے واپس پہنچ چکے تھے اور اس واقعہ کا ذمہ دار اس نے شامی فوج ، ایران اور حزب اللہ کو قرار دیا۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے ایک دفاعی وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تاکہ وہاں اپنی وضاحت پیش کی جا سکے۔

اسی دوران روس کے صدر ولادمیر پوین نے غالباً اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اس ساری صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ یہ تنازع اس وقت بحرانی کیفیت اختیار کرتا نظر آ رہا تھا جب روس کی وزارتِ دفاع نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اسرائیلی ہوا بازوں کو غیر پیشہ وارانہ رویے اور مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس کے دو دن بعد ہی روس نے شام کو ایس 300 میزائیل فروخت کرنے کا اعلان کر دیا۔ لہٰذا اب روس کی کیا پوزیشن ہے اور اس نظام کی فراہمی سے کیا فرق پڑے گا اورشام کا ایئر ڈیفنس کس حد تک مضبوط ہو سکے گا۔ روس کے موقف میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شام کے شہر لتاکیہ میں روس کے فضائی اڈے پر جدید ترین روسی میزائل اور راڈار موجود تھے ۔ یہ بڑی آسانی سے اسرائیل کو کہہ سکتا تھا کہ شامی فضائی حدود کا دفاع کرنے کے لیے وہ ان کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن بظاہر اس نے ایسا نہیں کیا۔

روسی فوج میں بجا طور پر اپنے ایک انتہائی جدید جہاز کی تباہی اور پندرہ فوجیوں کی ہلاکت پر غم اور غصہ پایا جاتا ہے اور ماسکو کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن کیا اس غصے کا رخ اسرائیل کے بجائے اپنے اتحادی شام کی طرف ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہ روس کے فضائی اڈے سے انتہائی قریب اسرائیل نے حملہ کر کے سرخ لائن عبور کر لی ہے۔ اسرائیل کھلے بندھوں کہہ چکا ہے کہ حزب اللہ کو ایران کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی اور شام میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کو روکنا اس کے دفاعی ترجیحات میں شامل ہیں۔ مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روس یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ شام پر اسرائیل حملوں کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتا جو اس کے خیال میں شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر واقعی روس کا یہ ارادہ ہے تو اسرائیل کو اب احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں شام میں اس حوالے سے کئی کشیدہ لمحات اور غیرمتوقع دھچکے لگ سکتے ہیں۔

جوناتھن مارکس
تـجزیہ نگار، دفاعی و سفارتی امور

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Post a Comment

0 Comments