Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

چین میں ایغوروں کا وطن ایک ’کیمپ‘ میں تبدیل

اقوام متحدہ کے مطابق چین میں دس لاکھ سے زائد ایغور باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ ایک بہت بڑے’ کیمپ‘ میں بدل چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ان دعوؤں کو بیجنگ حکومت تاہم مسترد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی نسل پرستی کے خاتمے کی کمیٹی کا ایک دو روزہ اجلاس شروع ہوا ہے، جس میں چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس کے پہلے روز خاص طور پر ایغور نسل کو درپیش حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جنیوا میں اس کمیٹی کی خاتون نائب چیئرمین گے میکڈوگل نے بتایا کہ مستند رپورٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چینی حکومت کے مذہبی شدت پسندی ختم کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے ایغوروں کے نیم خود مختار خطے میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔

ان کے بقول یہ اب ایک بہت بڑے کیمپ میں بدل چکا ہے اور اسے ایک ایسا علاقہ کہا جا سکتا ہے، جہاں کسی کو کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا،’’تقریباً دو ملین ایغوروں کو سنکیانگ میں زبردستی سیاسی اور مذہبی کیمپوں میں بند کر دیا گیا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ برس چین میں ہونے والی کل گرفتاریوں میں سے ستائیس فیصد اسی خطے سے کی گئی تھیں۔ چین میں ایغوروں اور دیگر مسلم برادریوں سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔ جنیوا میں موجود پچاس رکنی چینی وفد کی جانب سے میکڈوگل کے ان الزامات پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اس اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں آباد مختلف نسلی گروہوں کے مابین مساوات اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

چین میں بیس ملین سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سب سے بڑی تعداد ہُوئی اور ایغوروں کی ہے۔ ایغوروں نے مغربی چین کے سنکیانگ کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس خطے میں بد امنی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 2009ء کی خونریزی نمایاں ہے۔ جولائی 2009ء میں ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے چینی باشندوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اسے خطے میں نسلی بنیادوں پر ہونے والی تاریخی ہنگامہ آرائی قرار دیا گیا اور اس دوران تقریبا 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments