Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جب امریکہ میں مکینک جہاز چوری کر کے لے اڑا

امریکہ میں ہوائی اڈے کے ایک ملازم کی جانب سے چرایا جانے والا خالی مسافر طیارہ ایک جزیرے پر گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق طیارہ چرانے والا ملازم یا تو اناڑی تھا یا ہوا میں کرتب دکھانے کے دوران وہ طیارے کا کنٹرول کھو بیٹھا جس کے باعث طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ حکام نے تاحال طیارہ چرانے والے 29 سالہ ملازم کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے اور قوی امکان ہے کہ وہ حادثے میں زندہ نہیں بچا ہے۔ ابتداً یہ بتایا گیا تھا کہ طیارہ چرانے والا شخص ایک مکینک تھا لیکن بعد ازاں حکام نے وضاحت کی کہ ملازم گراؤنڈ سروس کا اہلکار تھا جس کا کام ہوائی اڈے پر طیاروں کو گیٹس تک رہنمائی فراہم کرنا اور ان پر جم جانے والی برف ہٹانا ہوتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ چرایا گیا طیارہ 'الاسکا ایئرلائنز' کی نجی کمپنی 'ہورائزن ایئر' کا تھا جو امریکہ کی مغربی ریاستوں میں چھوٹے روٹس پر پروازیں چلاتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 76 نشستوں والا طیارہ ریاست واشنگٹن کے مصروف تین 'سی ٹیک انٹرنیشنل ایئرپورٹ' پر کھڑا تھا جب 29 سالہ ملازم کنٹرول ٹاور کے روکنے کے باوجود اسے اڑا لے گیا۔ واقعے کے وقت طیارے میں کوئی مسافر سوار نہیں تھا۔ واقعے کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈھلتی شام کے اوقات میں طیارہ فضا میں لمبے چکر کاٹ رہا ہے اور دیگر کرتب دکھا رہا ہے۔ علاقہ پولیس کے ترجمان ایڈ ٹرایر نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ ملزم خود کشی کرنا چاہتا تھا اوراس کی یہ کارروائی دہشت گردی نہیں تھی۔

ترجمان کے مطابق جہاز چرائے جانے کی اطلاع پر فوج سے مدد طلب کی گئی تھی جس کے بعد پڑوسی ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں واقع فوجی اڈے سے ایک 'ایف 15' جنگی طیارہ چند منٹوں میں ہی روانہ کر دیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے مسافر طیارے کے گرنے سے قبل ایک جنگی طیارے کو اس کا پیچھا کرتے دیکھا تھا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ مسافر طیارہ پائلٹ کی اپنی غلطی سے گرا اور اسے گرانے کے لیے جنگی طیارے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکام کے مطابق طیارہ ریاست واشنگٹن کے علاقے ٹیکوما کے جنوب مغرب میں واقع کیٹرون نامی جزیرے پر گر کر تباہ ہوا جہاں واقعے کے بعد فیریز اور کشتیوں کے ذریعے امدادی اور سکیورٹی اہلکار پہنچے۔ علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ طیارہ چرانے والے شخص کے ماضی کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

Post a Comment

0 Comments