Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یہ مبینہ پولیس مقابلہ ہوتا کیسے ہے؟

نقیب اللہ محسود کو کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ وہی لوگ جو چند روز پہلے زینب کے قاتلوں کی سرِ عام پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس ماورائے عدالت قتل پہ چلا اٹھے کیونکہ وہ انسان ہیں اور اپنے ہی جیسے ایک گوشت پوست کے انسان کو کوڑے کے ڈھیر پہ نچا کھچا، مردہ پڑا دیکھ کر اور زندگی سے بھر پور ایک انسان کو صفائی کا موقع دیے بغیر مارے جانے پہ انھیں اب بھی دکھ ہوتا ہے۔ پاکستان کی پولیس، دیگر عنایات کی طرح ’کالونیل‘ (سامراجی) دور ہی کی دین ہے۔ اس پولیس کا ڈھانچا، اہلکاروں کو دی جانے والی تربیت اور ان کی نفسیات، کالونیل دور سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

یہ کھیل اتنا دل لگا کر کھیلا گیا کہ ساری دنیا ایک گول دائرہ بن گئی جو ہمارے چاروں طرف گھومے جا رہی ہے اور ہم اپنے پیروں پہ گڑے اس منظر سے چکرائے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ منظر تو بالکل واضح ہے، ہم ہی رک کے، ٹھہر کے دیکھنا نہیں چاہ رہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ مبینہ پولیس مقابلہ، ہوتا کیا ہے؟ اس کے بارے میں جتنے منہ، اتنی باتیں ہیں۔ ایک مبینہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں اور مجرم، بہر حال مجرم ہی ہوتے ہیں (چونکہ یہ بھی ایک مبینہ حقیقت ہے اس لیے اس کی صحت پہ شک کرنے کا آ پ کو پورا حق حاصل ہے) تو جب یہ پولیس والے ان مجرموں کو گرفتار کرتے ہیں تو ان کی جانب سے ان کے اہلِ خانہ اور رشتے داروں کے لیے مبینہ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

بعض اوقات یہ مجرم اپنی مبینہ سزا کاٹ کے باہر آتے ہیں تو اپنی مبینہ دھمکیوں کو مبینہ طور پہ عملی جامہ بھی پہناتے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس نے مبینہ طور پہ یہ طریقۂ کار وضع کیا ہے اور اس مبینہ پولیس مقابلے کے قواعد و ضوابط صرف سینہ گزٹ میں پائے جاتے ہیں۔ ان مبینہ قواعد و ضوابط کے مطابق، ایسے مجرموں کو کسی علاقے میں لے جا کر بھاگنے کا موقع دیا جاتا ہے یا بھگا دیا جاتا ہے اور پھر ایک خاص فاصلے سے ان کو گولیاں ماری جاتی ہیں۔ جو اسلحہ یا پولیس کی زبان میں ’مدعا‘ ان پہ ڈالنا ہوتا ہے، وہ ساتھ ہی لے جایا جاتا ہے اور لاشوں کے قریب ایک خاص انداز میں رکھ دیا جاتا ہے۔

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں، دیکھتے ہی پا جاتے ہیں کہ یہ مبینہ پولیس مقابلہ ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہر پولیس والا یہ مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی کر سکتا ہے کیونکہ مجرموں کو تو مار لیا لیکن ان کے ’سائیں‘ صرف بد دعاؤں سے مرتے ہیں۔ چنانچہ ہر دور میں کوئی ایک آدھا پولیس آفیسر ہی اس کام کے لیے ٹرینڈ کیا جاتا ہے۔ ایک مبینہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس روایت کی آڑ میں بہت سے ذاتی بدلے بھی چکائے جاتے ہیں، مزید براں کچھ معاملات میں پولیس والے اپنی جان پہ کھیل کے ملزم کو گرفتار بھی کر لیتے ہیں تو قانونی کی پیچیدگیوں اور عدالتی نظام میں پائے جانے والے موروثی سقم ملزمان کو بچ نکلنے کے مواقع مہیا کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں پولیس والوں کی ساری محنت اور قربانی ضائع ہو جاتی ہے۔ ایسا ہوتا ہے، گو میں اس کو بھی ’مبینہ‘ ہی کے کھاتے میں ڈالوں گی کیونکہ ادھر کچھ دنوں سے، بعض احباب کا خیال ہے کہ ایسی سچائیاں بیان کرنے سے کچھ اداروں کی توہین ہو جاتی ہے۔ مجھے چونکہ اپنی عزت بہت عزیز ہے اس لیے میں ایسے تمام احباب کی دل آزاری سے خائف رہا کرتی ہوں۔

غلط یا درست، بہر حال، اس ملک میں ’مبینہ پولیس مقابلے‘ ہوتے آئے ہیں اور ہم دیگر غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی طرح ان پہ بھی چپ بیٹھے رہے۔ عین اسی طرح جیسے ہم سالہا سال سے بچوں کو ہراساں کرنے اور ان سے غلط انداز میں پیار کرنے والے بڑوں کو ’پیڈیو فیلیا‘ کے مریض سمجھنے کی بجائے ’انکل جی‘ ہی سمجھتے رہے اور آخر کار پاکستان کو اس مرض کے شکار افراد کے لیے جولان گاہ بنا کر رکھ دیا۔ ’مبینہ پولیس مقابلہ‘ عوام میں تعریف اور توصیف نہ سہی، لیکن قبولیت کی سند تو پا ہی چکا ہے۔ آج بھی اگر یہ بات ثابت نہ ہوتی کہ یہ نقیب اللہ، وہ نقیب اللہ نہیں جسے مقابلے میں ٹپکانا تھا تو شاید کسی کے بھی کان پہ جوں تک نہ رینگتی۔ ہجوم کے ہاتھوں مارا جانا یا پولیس مقابلے میں مارا جانا، سماج کے اصولوں کی سولی چڑھ جانا، سب ہمارے لیے ایسے جرائم ہیں جنھیں ہم خاموشی سے قبول کر چکے ہیں۔

خاموش رہنے والوں کے لیے ایک محاورہ مشہور ہے کہ مردہ جب بھی بولا کفن پھاڑ کر بولا، تو اب معاشرے کا یہ مردہ کفن پھاڑ کر بول رہا ہے ، راؤ انور صاحب کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انکوئری جاری ہے ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ انکوائری ایک اور ’مبینہ پولیس مقابلہ‘ نہیں؟ جب تک معاشرے میں انصاف کے راستے میں قانون کی پیچیدگیاں حائل رہیں گی، مبینہ اور غیر مبینہ پولیس مقابلے جاری رہیں گے ۔ پولیس کا کام صرف مجرم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا ہے اور عدالت کا کام صرف اور صرف انصاف فراہم کرنا ہے باقی مرغی اور سکرٹ کی داستان ہم لوگوں کے لیے چھوڑ دیجیے آ خر ہم کو بھی طویل یا مختصر کچھ تو لکھنا ہے، مہربانی!

آمنہ مفتی

مصنفہ و کالم نگار

بشکریہ بی بی سی اردو

 

Post a Comment

0 Comments