Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی افواج میں بڑھتی ہوئی خودکشی ؟

انسان اچھی بری جبلّتوں (Instincts) کا مجموعہ ہے۔ جان بچانا بھی عینِ فطرت ہے اور جان دے دینا بھی ایک فطری انسانی تقاضا ہے۔ اقبال کا یہ شعر اسی فطرت کا غماز ہے:

برتر از اندیشہ ء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی

جنگ و جدال اور کشت و قتال اگر انسان کی سرشت میں شامل ہے تو رحمدلی و کرم فرمائی بھی وہ انسانی جبلت ہے جس کا مظاہرہ ہم آئے روز دیکھتے اور سنتے ہیں۔ یعنی انسان ایک دوسرے کو تہہ تیغ بھی کرتا ہے اور ایک دوسرے کو بچاتا بھی ہے۔ بعض اوقات تو کسی کو بچانے کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ کسی کی جان بچاتے بچاتے انسان اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے۔ جنگ کے میدان میں جب کشتوں کے پشتے لگ رہے ہوتے ہیں تو یہ دونوں مظاہر بظاہر متضاد خصوصیات ہیں لیکن اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ فارسی میں ایک محاورہ ہے: ’’مرگِ انبو ہے، حبشنے دارد‘‘ یعنی اگر کثیر تعداد میں انسان مر رہے ہوں تو وہ بھی ایک جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔

تاریخِ جنگ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر کوئی سالارِ لشکر اس دو گونہ متضاد انسانی جبلّت کا کماحقہ ادراک نہیں رکھتا تو وہ عظیم کمانڈر نہیں کہلا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم سپہ سالاروں نے متواتر اور مسلسل جنگی حالات سے اجتناب برتا ہے اور جنگ میں وقفے دیئے ہیں تاکہ موت کے منظر کے بعد امن و امان کے مناظر بھی ان کی سپاہ کو دیکھنے کو ملیں۔ 323 ق م میں جب سکندر اعظم ہندوستان میں دریائے جہلم کے کنارے آ پہنچا تھا تو اس سے پہلے اس نے نہ صرف پورے یونان کو فتح کیا بلکہ مصر اور ایران پر بھی قبضہ کرنے کے بعد برصغیر کا رخ کیا تھا۔ لیکن جب دیر اور باجوڑ کے راستے یونانی لشکر شاہیا کے چٹیل میدان اور ٹیکسلا میں آکر خیمہ زن ہوا تو لشکر کی اکثریت خونریزی کے مسلسل مناظر سے تنگ آ چکی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سکندر اپنی فتوحات کے درمیان طویل وقفے کرتا۔ لیکن اس نے یہ غلطی کی کہ ایک کے بعد دوسرے ملک پر چڑھائی کرتا چلا گیا۔ اس تاخت و تاراج کے تسلسل اور امن و امان کے وقتوں میں کسی تعطل کی عدم موجودگی نے یونانی سپاہ کو بد دل کر دیا۔ 

ٹروپس کو محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک ایسا روبوٹ بن گئے ہیں جس کا کام صرف تیغ بازی، تیر اندازی اور شمشیرزنی ہے۔ چنانچہ انہوں نے راجہ پورس کو شکست دینے کے بعد آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور سکندر کو اپنی نو عمری کے باوصف واپس جانا پڑا۔ اگر انسانی جبلت کے اس پہلو کو سالوں سال دوام ملتا رہے تو انسان واقعی اکتا جاتا ہے۔ شائد اسی انسانی پہلو کو غالب نے ایک اور پیرائے میں اس طرح بیان کیا تھا :

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

گردشِ مدام یا قتالِ مدام یا امن و امانِ مدام انسانی فطرت کا خاصا کبھی نہیں رہا۔ اگر انسان مرتا ہے تو زندہ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر انسان لڑائی بھڑائی میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے تو یہ شائد اس کی انفرادی خصلت ہو تو ہو، اجتماعی سرشست نہیں ہو سکتی۔

محمود غزنوی ہر سال ہندوستان پر ایک حملہ کرتا تھا اور پھر واپس لوٹ جاتا تھا۔ لیکن اگلے سال پھر قتال کے ارادے سے کسی اور شہر پر حملہ آور ہوتا۔ 17 برسوں میں اس نے ہندوستان پر 17 حملے کئے۔ اس نے سوچا اگر میدانِ جنگ مسلسل دس بارہ دنوں تک بھی اس کے لشکر کی تلواروں کی جھنکار، تیروں کی بارش اور گھوڑوں کی یلغار سے گونجتا رہے تو سال کے باقی 355 دن وہ کیا کرے گا؟۔ اگر آپ محمود غزنوی کے سترہ حملوں میں اس کے لشکر کے وہ ایام شمار کریں جن میں وہ اپنی سپاہ کو مقتل سے ہٹا کر وطن مالوف کے پُرامن شہروں اور دیہاتوں میں لے جایا کرتا تھا تو ان کی تعداد ان ایام سے بڑھ جائے گی جو غزنوی سپاہ اپنے مستقر سے روانگی سے لے کر فتح کے بعد وطن واپسی تک میں صرف کیا کرتی تھی۔

وار ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کر لے اس کو روبہ عمل لانے والا عنصر صرف اور صرف انسان ہی ہو گا۔ انسان ہی ہر جنگ کا مرکزی کردار رہا ہے (اور آئندہ بھی رہے گا) ہتھیار اور گولہ بارود کے انبار اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔ ایسے انبار جو ختم ہونے ہی میں نہ آئیں۔ لیکن ان کو استعمال تو آخر گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان نے ہی کرنا ہے۔ لوہے، فولاد، بارود ، ربڑ یا پلاسٹک جو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ساخت میں استعمال ہوتے ہیں، وہ تو بے جان ہوتے ہیں، ان کو آرام کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن انسان کو آرام کے وقفوں کی ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گارڈ ڈیوٹی پر متعین انسانوں کی ڈیوٹی (مشن کی اہمیت اور حالات کے پیش نظر) دو دو چار چار گھنٹوں کے بعد بدلتی رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر کوئی یونٹ جس کی نفری 500 سے 900 سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل ہو اس کو کسی ایک مقام پر ایک ہی مشن کی ادائیگی کے لئے سٹیشن نہیں رکھا جاتا۔ اس کو باری باری اور وقفے وقفے سے میدانی اور کوہستانی علاقوں میں گھمایا جاتا ہے۔ یہ روٹیشن فوج کا ایک معمول ہے اور یہ معمول انسانی جبلّت کے پیشِ نظر ہی وضع کیا گیا ہے۔

پاکستان آرمی کی یونٹوں کو فاٹا میں جنگ کرتے ہوئے 16،17 برس گزر چکے ہیں۔ لیکن کوئی ایک یونٹ زیادہ سے زیادہ ایک دو سال سے زیادہ کسی ایک مقام پر سٹیشن نہیں رکھی گئی۔ یہ ٹرن اوور اُس انسانی جبلت کے ٹرن اوور پر منحصر ہے جس کا ہم اس کالم میں ذکر کررہے ہیں۔ اگر اس انسانی سرشت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا تو پاکستان آرمی کا حشر بھی وہی ہو گا جو ماضی ء قریب میں امریکن آرمی کا ہوا ہے! امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن ابھی زمینی قبضے کو پوری طرح سمیٹا (Consolidate) نہیں کیا گیا تھا کہ امریکن آرمی کو عراق میں انڈکٹ کر دیا گیا، اس کے بعد لیبیا اور پھر شام میں اسی فوج کو استعمال کیا جانے لگا (اور کیا جا رہا ہے) لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ریگولر امریکی فوج (Army) کی نفری پاکستان آرمی سے بھی کم ہے۔ اس عددی قلت کو امریکن آرمی، وار ٹیکنالوجی کی کثرت سے پورا کرتی ہے۔

لیکن یہ ٹیکنالوجی بھی چونکہ بے جان ہے اور اس کو آپریٹ انسان ہی کرتا ہے تو پھر ہر انسان کی برداشت کی ایک حد بھی ہوتی ہے چاہے وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا۔ امریکی یونٹوں کو حالیہ برسوں میں وقفے وقفے سے بار بار میدانِ جنگ میں اتارنے کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان کو کسی محاذ پر اپنی کسی یونٹ کو گھمانے (Rotate) کے لئے دو سال ملتے ہیں تو امریکن آرمی کو صرف 9 ماہ ملتے ہیں۔ یعنی ایک ہی امریکی سولجر کو بار بار جنگ میں کودنا پڑتا ہے جس سے بار بار اس کی اس نفسیاتی سرشت کی آزمائش ہوتی ہے جو جنگ اور امن کے درمیان ایک ’’خاص‘‘ وقفہ مانگتی ہے۔ جب اسے یہ وقفہ نہیں ملتا تو انسان کی نفسیات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سولجر، بعد از ریٹائرمنٹ ، تھوک کے حساب سے خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

چار سال پہلے 2013ء میں امریکہ میں جو سروے کیا گیا اس کے مطابق ریٹائرڈ فوجیوں کو [جن کو امریکہ میں ’’ویٹرن‘‘ (Vetran) کہا جاتا ہے] بار بار میدانِ جنگ میں بھیجا جاتا رہا۔ کبھی افغانستان، کبھی عراق اور کبھی شام میں۔ بار بار کی اس مسلسل انڈکشن نے ان میں خودکشی کا گراف اس حد تک بڑھا دیا کہ ان کی تعداد 345 ویٹرن سالانہ ہو گئی۔ یعنی 365 دنوں میں 345 سابق فوجی خودکشی کر لیتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکی فوج 2001ء سے 2014ء تک بڑی بُری طرح مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں الجھی رہی۔ ان جنگوں میں ہلاک ہو جانے والے امریکیوں کی تعداد بھی اگرچہ کم نہ تھی لیکن جو امریکی زخمی یا اپاہج ہو جاتے تھے، ان کی تعداد ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔

آپ کو معلوم ہے کہ امریکی معاشرے میں سماجی اور خاندانی اقدار و روایات ایک پل صراط پر چلتی ہیں۔ ہر بالغ مرد یا عورت کو کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ اگر کام نہیں کرتا تو بھوکا (تقریباً) مر جاتا ہے۔ جو فوجی ریٹائر ہو کر اور اپاہج ہو کر واپس اپنے معاشرے میں جاتا ہے اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔ وہ رشتہ دار صرف اپنی دیکھ بھال کا ذمہ دارہوتا ہے اور بس۔ کسی فوجی کی بیوی یا گرل فرینڈ زیادہ دیر تک اپنے شوہر یا آشنا کا انتظار نہیں کرتی۔ کوئی دوسرا شوہر / آشنا ڈھونڈ لیتی ہے۔ لیکن جب وہ سابق شوہر / آشنا (سپاہی یا آفیسر) میدانِ جنگ سے اپاہج ہو کر واپس وطن لوٹتا ہے تو اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اس کو شکم کی آگ بجھانے کے علاوہ ان انسانی جذبوں کی آگ بھی بجھانی ہوتی ہے جو اس کی سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ جب وہ آگ نہیں بجھتی تو یہ ریٹائرڈ سولجر سوچتا ہے کہ میرا مر جانا ہی بہتر ہے۔ وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ جن میدان ہائے جنگ میں اس نے درجنوں انسانوں کو ہلاک اور زخمی کیا تھا وہ بھی تو آخر انسان تھے۔ اگر وہ زندہ نہیں رہے تو میری زندگی تو اب ان سے بھی بدتر ہے۔ وہ مرنے والے مر کر گویا ایک مسلسل عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ ایسی تنہائی ،بے وفائی، کسمپرسی اور ناامیدی اس کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔

ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں انسان ابھی روبوٹ نہیں بنا۔ اس میں جذبات و احساسات کا وہ آمیزہ ہنوز موجود ہے جس میں رشتہ داریاں، ہمسائیگی، روائتیں اور مل جل کر رہنے کی خاندانی اقدار زندہ و تابندہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آرمی میں خودکشی کی طرف جانے کا کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ اگر کوئی ایک آدھ ہو بھی تو اس کی وجوہ وہ نہیں ہوتیں جو امریکہ، جاپان یا دوسرے یورپی معاشروں میں پائی جاتی ہیں۔ اس عدم رجحان کی ایک مذہبی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ جو پاکستانی خواتین اور مرد خودکشی کرتے ہیں، اس کے اسباب، ویٹرن امریکیوں کی خودکشی کے اسباب سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔۔۔ اور یہ الگ الگ موضوع ہے!

لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام جیلانی خان
 

Post a Comment

0 Comments