Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہمیں سچے، امانت دار نہیں جھوٹے، خائن رہنما چاہیں؟

اب تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کہہ دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1F) کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن سے مل کر آئین میں ترمیم کا بل لایا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس آئینی شق کو اس لیے ن لیگ نکالنے کے لیے بے چین ہو گئی کیوں کہ سپریم کورٹ نے اسی آرٹیکل کو استعمال کر کے میاں نواز شرف کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ اس آئینی شق کے مطابق کوئی ایسا شخص پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں ہو سکتا جسے کسی عدالت فیصلہ کے ذریعے یہ قرار دے دیا جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں۔ صادق یعنی سچا اور امین یعنی امانت دار۔ 

سپریم کورٹ کا نواز شریف کے متعلق فیصلہ اگر کمزور تھا اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ انصاف پر مبنی نہیں تھا تو اس کا کیا مطلب ہوا کہ اس آئینی شق کو ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ کیسی منفی سوچ ہے۔ ایسی سوچ کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عدالت کے ذریعے ثابت شدہ جھوٹے اور بے ایمان جو امانت میں خیانت کرتے ہوئے پکڑا جائے، کے لیے نہ صرف پارلیمنٹ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے بلکہ ایسے افراد کے لیے وزیر اعظم، وزیر ، مشیر، گورنر سمیت کسی بھی اعلیٰ عہدے پر پہنچنا مسئلہ نہ ہو گا۔ حکمرانی اور پارلیمنٹ تک رسائی کا حق صرف ایسے افراد کو ہی ہونا چاہیے جو عمومی طور پر سچے جانے جاتے ہوں اور جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ امانت دار ہوں گے۔

ہمارے ہاں میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والا ایک طبقہ آئین کے آرٹیکل 62 (1F) سمیت کچھ دوسری آئینی شقوں کے اس لیے خلاف ہیں کہ ان شقوں کا تعلق اسلامی تعلیمات سے ہے اور یہ بھی کہ ان کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے دوران اُس وقت کی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا۔ ان شقوں پر اگرچہ کبھی عمل نہ ہوا اور نہ ہی عمل کرنے کی کسی نے کبھی بھی کوئی کوشش کی لیکن ان کو پڑھیں تو مقصد صرف ایک نظر آتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں جو افراد آئیں وہ کردار کے لیحاظ سے بہترین ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ امین اور صادق تو ہم سے کوئی ہو نہیں سکتا اس لیے ان آئینی شرائط کو ہی آئین سے نکال باہر کریں۔ ایسی باتیں میں نے کچھ سابق جج حضرات سے بھی سنیں۔ 

بلکہ ایک سپریم کورٹ کے جج صاحب نے پاناما کا کیس سننے کے دوران کہا تھا کہ اگر آرٹیکل 62-63 پر سختی سے عمل کیا جائے تو ماسوائے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کوئی دوسرا ممبر پارلیمنٹ میں نہ رہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ آئین کے مطابق صادق اور امین وہ نہیں جس کو عدالت نے جھوٹا اور بے ایمان ثابت کر دیا۔ ورنہ یہ آئینی شق کسی دوسرے پر لاگو نہیں ہونی چاہے وہ واقعی حقیقی زندگی میں جھوٹا ہو، بے ایمان ہو۔ یعنی صادق اور امین وہ نہیں جس کے بارے میں عدالت ایسا فیصلہ کر دے۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ یہاں تو امریکا ، برطانیہ اور یورپ وغیرہ میں یہ برداشت نہیں کیا جاتا کہ اُن کے حکمران اور پارلیمنٹیرین جھوٹ بولیں یا امانت دار نہ ہوں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن کو جھوٹ بولنے پر مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہم ہیں کہ آئین سے ان شرائط کو اس لیے نکالنے کے لئےتیار ہو گئے کیوں کہ نواز شریف کو ان آئینی شقوں کی وجہ سے عدالت عظمٰی نے نااہل قرار دے دیا۔

ماضی میں پی پی پی اور کچھ دوسری سیکولر سیاسی جماعتیں اس کوشش میں رہیں کہ آئین کی ان اسلامی شقوں کو دستور سے نکال دیا جائے باوجود اس کے کہ ان شقوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کبھی نہ سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ نے کوشش کی اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے اس بارے میں کوئی دلچسپی لی۔ ن لیگ ماضی میں ان اسلامی شقوں کو ختم کرنا تو درکنار ان میں ترمیم کے بھی خلاف رہی۔ گزشتہ پی پی پی دور حکومت میں پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم کے دوران ان شقوں کا بھی جائزہ لیا لیکن ن لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مخالفت کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ انہیں اسی طرح آئین میں رکھا جائے گا۔ ویسے بھی سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق آئین کے بنیادی ڈھانچہ جس میں آئین میں شامل اسلامی شقیں شامل ہیں کو پارلیمنٹ تبدیل نہیں کر سکتی۔ 

لیکن اس سب کے باوجود اب ن لیگ سب سے آگے آگے یہ مہم چلا رہی ہے کہ ان اسلامی شقوں کو دستور سے نکال دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر پی پی پی اور پی ٹی آئی اس مسئلہ پر ن لیگ کا ساتھ نہ دیں لیکن پی پی پی تو مکمل طور پر جبکہ پی ٹی آئی میں موجود ایک طبقہ ان اسلامی شقوں کو آئین سے مکمل طور پر ہذف کرنے کے حق میں ہیں۔ ایسے حالات میں مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کو چاہیے کہ ن لیگ کی آرٹیکل 62-63 کو ختم کرنے کی اس مہم جوئی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں ورنہ کوئی بعید نہیں کہ اب ن لیگ کچھ دوسری سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے اسلامی آئین کو ہی سیکولر بنانے کے لیے کوئی کارروائی نہ کر دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ کی لیڈر شب کو احساس نہیں کہ وہ کتنا خطرناک کام کرنے جا رہی ہے ۔

انصار عباسی
 

Post a Comment

0 Comments