Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سانحہ 17 اگست : جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی حادثہ یا سازش ؟

17 اگست 1988ء کو اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق بہاولپور میں ایک طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے طیارے C-130 میں سابق جنرل اختر عبدالرحمن اور امریکی سفیر رافیل سمیت 30 افراد سوار تھے جو سب کے سب راہی اجل ہوئے۔ اس وقت کے امریکی ترجمان فلس اوکلے کے مطابق طیارہ بہاولپور میں تقریباََ 4:30ََ منٹ پر یعنی پرواز کے دس منٹ بعد تباہ ہو گیا۔ سب لوگ بہاولپور میں ایم ون ٹینک کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد واپس راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے تو حادثہ پیش آگیا۔

پاکستانی سرکاری بیان کے مطابق طیارہ فضا میں 4 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور ٹیک آف کے چند منٹ بعد ہی کریش کر گیا۔ ایک چشم دید گواہ کے مطابق اس سہ پہر فضا میں طیارے میں سے دھواں بلند ہوا اور پھر وہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس حادثے کے بعد دس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور جائے حادثہ سے ملنے والی ضیاء الحق کی باقیات کو فیصل مسجد اسلام آباد میں دفنایا گیا۔ اس وقت کے امریکی نائب صدر بش نے تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ صدر ضیا ہمارے دوست تھے اور ان کی موت ایک المیہ سے کم نہیں ہے‘‘۔ جائے حادثہ پر امریکی فرانزک ماہرین نے تحقیقات بھی کیں۔ اس دور میں بعض افراد نے کہا کہ طیارے کو ایک سازش کے تحت فضا میں تباہ کیا گیا ، کچھ نے کہا کہ اس میں کوئی کالعدم تنظیم ملوث ہو سکتی ہے۔

طیارے میں سوار بعض افراد پر بھی شک کیا گیا کہ وہ بھی خود طیارے کی تباہی کی سازش میں ملوث تھے لیکن ان کے بھی کریش میں جاں بحق ہونے کے بعد مزید تحقیقات ممکن نہ رہیں اور فائل بند کردی گئی ۔ کچھ عرصے بعد ایکسپلوڈنگ مینگوز کے نام سے ایک کتاب منظر عام پر آئی لیکن مصنف کسی واضح سازش کی طرف نہ پہنچ سکا ۔ یہ ضرور تھا کہ کچھ غیرمعمولی ہوا تھا کیوں کہ ہائی پروفائل طیارے کا حادثہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اسے صرف تکنیکی خرابی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ایجنسی موساعد کا نام بھی لیا گیا۔ ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ پاکستان نے افغان جنگ میں روسی مقاصد کو نقصان پہنچایا تھا اس لئے روس بھی ضیاالحق کیخلاف سازش کر سکتا ہے ۔ 

مذہبی جماعتیں افغان جنگ کی وجہ سے ان کے قریب ہوئیں اور پاکستان امریکی مدد کے ساتھ روس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔ اسی افغان جنگ سے پھر طالبان نکلے اور انہوں نے کچھ عرصہ بعد افغانستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ’’ ان کے والد کا طیارہ کریش ہونا بہت بڑی سازش تھی‘‘ ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ضیاالحق کے کئی اقدامات سے ان کے بہت سے عالمی اور مقامی دشمن پیدا ہو چکے تھے۔ ضیا الحق 1977 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کوختم کر کے برسر اقتدار آئے تھے، انہوں نے90 دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا جو کہ ایفا نہ ہو سکا۔احتساب کا نعرہ لگا کر انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا۔ 

نظریہ ضرورت بھی اسی دور میں سامنے آیا جس کے تحت عدالت عظمیٰ نے ان کی حکومت کو جائز قرار دے دیا تھا ۔ بھٹو کو پھانسی دے کر انہوں نے اپنے ممکنہ سیاسی حریف سے چھٹکار تو پا لیا لیکن اس سے خود ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ مارشل لا ء کے نفاذ کے بعد جسٹس یعقوب علی کو ہٹا کر ان کی جگہ پر جسٹس (ر) انوارلحق کو چیف جسٹس بنانے کیلئے (سابق) صدر فضل الہٰی پر پریشر ڈالا گیا۔ آئین میں کچھ اسلامی شقیں شامل کیں جن میں 62,63 ( صادق امین) کی شقیں آج بھی زیر بحث ہیں۔ انہوں نے اقتدار منتخب نمائندوں کو سپرد کرنے سے پہلے19 دسمبر 1984 ء کو ایک صدارتی ریفرنڈم کرایا۔ آئین میں ترامیم کے ذریعے سابق صدر کو بے پنا ہ اختیارات مل گئے۔ جن میں 58 ٹو بی بھی شامل تھی جس کے تحت صدر اسمبلی اور وزیراعظم کو برطرف کر سکتا تھا۔

ان کے دور میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے اور جونیجو وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ ان کی حکومت کو 58 ٹو بی کے ذریعے ختم کیا گیا۔ سب سے اہم بات کہ اس دور میں ایٹم بم بنانے کا پروگرام جاری رکھا گیا جسے غیر ملکی طاقتوں نے اسلامی بم کا نام دیا۔ معاشی میدان میں انہوں نے بھٹو کے نیشنلائزیشن پروگرام کے برعکس کارپوریٹ پروگرام متعارف کروایا اور کارپوریٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی طرف توجہ دی گئی۔ان کے دور میں تحریک آزادی کشمیر کو تیز تر ہو گئی جس پر بھارت سیخ پا ہوا۔ اسی دور میں پاک بھارت تعلقات کو نارمل کرنے کیلئے کرکٹ ڈپلومیسی کا بھی آغاز ہوا ۔ 

حدود آرڈیننس کا اجرا بھی اسی دور میں ہوا، اور مذہبی حلقوں کو مطمئن کرنے کیلئے بنائی جانے والی پالیسی نے معتدل طبقوں کو ناراض کیا ۔ان کے ان اقدامات سے معاشرہ میں انتہاپسندی میں اضافہ ہوا ۔ اپنے دس سالہ دورا قتدار میں ضیاء الحق نے ملکی اقتدار پر بھرپور طریقے سے گرفت مضبوط کرلی تھی۔ انہوں نے ملک میں اپنے طور پر اسلامائزیشن کے لئے اقدامات اٹھائے جن کو مختلف طبقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا جھکائو عرب ممالک کی طرف زیادہ رہا اسی لئے انہوں نے نصاب میں عربی زبان کو شامل کیا۔ پیپلزپارٹی کو دبانے کیلئے انہوں نے مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ان طبقات کے ذریعے سے اپنی حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔ 

سیاست کو دبایا گیا جس سے مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہوا۔ نئے مدارس بنے اور شریعہ قانون کو نافذ کیا گیا۔ کلچرل پالیسی بنائی گئی جس میں ڈراموں میں خواتین کیلئے اورخاتون نیوز کاسٹر کیلئے دوپٹہ پہننا لازمی قرار دیا گیا ۔ افغان جنگ بھی ان ہی کے دور میں ایک بڑا اہم موڑ تھا جب پاکستان ایک ایسی جنگ میں کود پڑا جس کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس طرح پاکستان واضح طور پر روس کے خلاف امریکی کیمپ میں چلا گیا جس کے بدلے میں امریکہ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔

 طیب رضا عابدی


Post a Comment

0 Comments