Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جامع السلطان احمد : ترکی کی نیلی مسجد

سلطان احمد قدیم استنبول کا بلند ترین مقام ہے۔ یہیں پر ٹاپ کپی ( Topkapi) کا مشہور زمانہ قلعہ ہے۔ ایاء صوفہ کا عجائب گھر ہے زمین دوز بازار ہے‘ گلہائے پارک سینٹ آئرین کا گرجا آثار قدیمہ کا عجائب گھر ایک ہزار ستونوں والی ٹینکی، قسطنطین کا ستون سلطان احمد سوئم کا فوارہ سانپ کا سون جرمن فوارہ اور کئی قبریں ہیں۔ راستے میں ہوٹل سٹاپ پہ رک کر میں نے کمرہ لینا چاہا۔

منیجر نے میرا پاسپورٹ دیکھ کر مجھے مشورہ دیا کہ نیچے بیٹھ کر چائے پیو اور بارہ بجے کے بعد میرے پاس آ جانا میں کمرہ دے دوں گا۔ دراصل یہ ایک ترک کی ایک پاکستانی سے محبت تھی جو منیجر نے اپنی ایک دن کی آمدن مجھ پر قربان کر دی اور مفید مشورہ سے نوازا۔ ترکی کے ہوٹلوں میں اگلے یوم کا کرایہ دوپہر بارہ بجے سے شروع ہو جاتا ہے میں بارہ بج کر پانچ منٹ پر دوبارہ منیجر کے پاس گیا۔

اس نے اندراج کرنے کے بعد کمرہ کی چابی مجھے تھما دی۔ میں نے جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ اندر رکھا اور نیلی مسجد کی طرف چل پڑا۔ میں طالب علموں کو مشورہ دوں گا کہ وہ شاپ کپی استنبول اسٹوڈنٹ سنٹر (گنجائش سات سو پچاس بستر) میں ٹھہر کر اپنے ہم عمر ترک بھائیوں کے ساتھ اسلامی معلومات کا تبادلہ کریں اور پاک ترک بھائی چارے کو مضبوط تر بنائیں۔ مسجد کے باہر بنچ پر بیٹھا حاج میرا انتظار کر رہا تھا۔ علیک سلیک کے بعد ہم دونوں نے وضو کیا اور مسجدکے اندر جا بیٹھے۔

حاج بتلا رہا ہے کہ یہ مسجد جامع سلطان احمد اول کے نام سے موسوم ہے۔ اس منصوبہ میں ایک مسجد ایک وسیع عمارت اور ایک خانقاہ شامل ہے۔ اس منصوبے کو ماہر تعمیرات فقیر محمد آغا نے سات سالوں میں مکمل کروایا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر میں تقریباً بیس ہزار مختلف قسم کی ٹائیلیں استعمال کی گئی ہیں۔ استنبول شہر میں سات سو مساجد ہیں لیکن یہ نیلی مسجد واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔ یاد رہے شروع میں مسجد الحرام کے بھی چھ مینار تھے۔

ترکوں نے یہ مماثلث ختم کرنے کے لیے حرم شریف کی توسیع کے وقت ایک اور مینار کا اضافہ کر دیا تھا۔ اس جامع سلطان احمد میں حجر اسود کا ایک ٹکڑا بھی نصب ہے۔ ترکی کی دوسری بڑی مساجد کی طرح اس مسجد میں بھی عورتوں کے لیے خصوصی حصہ ہے جسے گوشہ خانم کہتے ہیں ویسے تو ترک دیہاتی عورتیں اپنے اہل خانہ کا بھرپور طریقے سے ہاتھ بٹاتی ہیں لیکن شہری عورتیں مردوں سے دو ہاتھ آگے نکلی ہوئی نظر آتی ہیں۔

اتاترک نے عورتوں کو ووٹنگ میں حصہ لینے کا اختیار 1943ء میں دیا تھا۔ ہر کہیں ہوٹلوں دفتروں اور دکانوں میں عورتیں ملازم ہیں جبکہ ان ملازمتوں کے اہل مردوں پر یہ دروازے بند ہیں۔ نماز کے بعد حاج اور میں مدرسہ امام و خطیب دیکھنے چل پڑے۔ حاج کا کہنا ہے کہ یہاں رمضان کے پورے مہینے افطار پارٹی چلتی ہے ہر روز کوئی پکا مسلمان تمام روزہ داروں کی افطاری کا بندوبست کرتا ہے۔ اس افطاری میں خود بھی شریک ہوتا ہے اور شہر کے دوسرے اکابرین کو بھی شرکت کی دعوت دیتا ہے۔ 

اس روح پرور اجتماع کو دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ اسلام کی نشاط ثانیہ زیادہ دنوں کی بات نہیں۔ استنبول میں مری آمد سے پہلے پہلے 1928ء میں مولانا مودودی لندن جاتے ہوئے یہاں ایئرپورٹ پر نماز باجماعت کروا گئے اور اب ترکوں کا پاکستانیوں کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے ’’پاکستان مسلم مضبوط‘‘ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں استنبول واقع گیٹ وے ٹو یورپ ہے اور یہاں مساجد کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر یہ بھی گمان ہونے لگتا ہے کہ یہاں پکے مسلمانوں کی تعداد بھی دنیا بھر کے کسی اور شہر سے زیادہ ہو گی۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ یہ ایک بین الاقوامی شہر ہے اور یہاں ہر قسم کے لوگ مل جاتے ہیں آج کل سکھوں کی ایک خاصی بڑی تعداد دیکھنے میں آ رہی ہے۔

(اقتباس : م ح سیاح کی کتاب ’’لاہور سے استنبول تک)  

Post a Comment

0 Comments