Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شام میں ایک بار پھر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اور اقوام عالم کی بحسی

شام کے شہر ادلب سے آنے والی خبروں کے مطابق شہریوں پر ہولناک کیمیائی حملہ کیا گیا۔ اگست 2013 کیے جانے والے سارن حملے کی طرح اس دفعہ بھی لوگوں کے کئی ایسے بیانات اور ویڈیو شواہد سامنے آئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شہریوں پر ایک مخصوص قسم کا کیمیائی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے جو 'نرو ایجنٹ' کہلاتا ہے۔ چار سال پہلے کیے جانے والے حملے میں کیمائی مادہ سارن استعمال کیا گیا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نرو ایجنٹ کے ثبوت کی تصدیق ویڈیو کی مدد سے نہیں ہو سکتی۔
مائع حالت میں پائے جانے والے نرو ایجنٹس سے اثر انداز ہونے والے افراد ان لوگ کے مقابلے میں مختلف رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو گیس والے نرو ایجنٹس سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ البتہ تمام نرو ایجنٹس انسانی جسم کے اندر جا کر ایک ہی طریقے سے رد عمل کرتے ہیں۔ شام میں استعمال ہونے والا کیمائی عنصر شاید سارن نہ ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ وہ کوئی اور نرو ایجنٹ ہو۔ ادارہ برائے ممانعتِ کیمیائی ہتھیار (او پی سی ڈبلیو) کی جاری کی گئی دستاویزات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے پاس وی ایکس نامی نرو ایجنٹ بنانے کی پوری صلاحیت ہے۔ ایک اور ممکنہ کیمیائی عنصر ٹابن بھی ہو سکتا ہے جو عراق نے 80 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر بنایا تھا۔
ٹابن کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ تیار کرنے میں آسان ہے لیکن دوسری جانب وہ وی ایکس اور سارن کے مقابلے میں وہ اتنا جان لیوا نہیں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی نرو ایجنٹس ہو سکتے ہیں لیکن ان کو بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مشترکہ طور پر کوشش کی جائے کہ شواہد جمع کیے جائیں اور فورینسک تفتیش سے یہ ثابت ہو کہ کون سا نرو ایجنٹ استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اگر نرو ایجنٹ کا استعمال ثابت ہو جاتا ہے، اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ شام میں معاملات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ کلورین کے بجائے اب نرو ایجنٹ استعمال ہو رہا ہے۔

اور یہ شاید اس لیے ہو رہا ہے کہ کلورین استعمال کرنے پر کوئی سزا نہیں ملی اور نہ ہی زیادہ اموات ہوئیں۔ اسد حکومت کی جانب سے نرو ایجنٹس کا استعمال یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ جب او پی سی ڈبلیو اور کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں شامل ہوئے تھے تو انھوں نے مکمل طور پر حقائق سے آگاہ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس کیمیائی ہتھیار بنانے کی اور اسے ترسیل کرنے کی صلاحیت ہے۔
البتہ یہ بات پریشانی کا باعث ہے کہ پابندیوں کے باوجود یہ ہتھیار بنانے کے لیے ضروری کیمیکل کہاں سے آئے۔

سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی بھرپور ناکامی ہے کہ وہ ان معاہدوں کے باجود کیمیائی حملوں کو روک نہیں سکی۔ سارن سمیت یہ تمام کیمیائی ہتھیار عمومی طور پر صرف شہریوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور یہ ان تمام پابندیوں کی کھلے عام خلاف ورزیاں کرتے ہیں جن کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ممنوع ہے۔

Post a Comment

0 Comments