Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایسا بم کیوں استعمال کیا گیا، اس وقت ہی کیوں؟

جب افغانستان کے شمالی ضلع شنوار کے پولیس افسر کریم نے دھماکے کی آواز
سنی تو وہ اس کی شدت کی وجہ سے کچھ دیر کیلئے ششدر رہ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ 'میں نے اس قبل ایسا کچھ نہیں سنا تھا'۔ وہ اور اس کے ساتھی یہ نہیں جاتے تھے کہ کس چیز کی آواز ہے لیکن انھیں یہ معلوم تھا کہ انھیں رد عمل ظاہر کرنا چاہیے۔ 'ہم سمجھے کہ یہ خود کش دھماکا ہے' لیکن یہ نہیں تھا۔ یہ آواز 300 ملین ڈالر کی رقم سے تیار ہونے والے 21600 پاؤنڈ وزنی بم 'جی بی یو 43' کی تھی جو امریکا نے ضلع اچن میں داعش کے تھکانے پر گرایا تھا۔ امریکی اور افغان حکام کے مطابق جمعرات کو ہونے والے بم حملے، اس بم کو 'تمام بموں کی ماں' کے نام سے پکارا جاتا ہے، کا مقصد دہشت گرد تنظیم داعش کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانا تھا۔

ننگرہار میں ہونے والے اس امریکی حملے کی خبر تیزی سے پورے افغانستان میں پھیل گئی، کابل اور صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں مقامی افراد نے اس پر یقین کرنے سے انکار کیا۔ جلال آباد کے ایک رہائشی داؤد کا کہنا تھا کہ 'میں اس پر یقین نہیں کر سکتا ہوں، ایسا بم کیوں استعمال کیا گیا، اس وقت کیوں؟'
دوسری جانب طالبان نے بم حملے کی مزمت کرتے ہوئے اسے غیر انسانی اور غیر ملکی فورسز کی ناقابل قبول کارروائی قرار دیا، یاد رہے کہ طالبان اور داعش ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں ان کے درمیان طویل جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ جس میں دونوں فریقین کو نقصان اٹھانا پڑا۔

گذشتہ 15 روز کے دوران ایک درجن سے زائد آپریشنز کے بعد امریکا کی جانب سے یہ بم حملہ کیا گیا جو داعش کیلئے ایک فیصلہ کن دھچکا ہو سکتا ہے۔
افغان اور امریکی فورسز نے گاؤں اسد خیل کے مذکورہ علاقے کو اس حملے سے قبل بند کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بم دھماکے سے قبل علاقے کو عام شہریوں سے خالی کرا لیا گیا تھا۔ نورجان، جس کے قریبی عزیز جن میں ایک 60 سالہ شخص اور 3 بچے شامل ہیں علاقے میں جاری آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے، کا کہنا تھا کہ شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کیلئے خبردار کیا گیا تھا۔

انھوں نے اپنے موبائل پر موجود ایک کارڈ کی تصویر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 'سیکیورٹی فورسز نے لوگوں کو کارڈ نکال کر دیے اور علاقہ خالی کرنے کو کہا'۔ خیال رہے کہ گذشتہ 3 سال کے دوران ضلع اچن اور اس کے اطراف کے اضلاع میں موجود شہری، علاقہ خالی کرنے پر مجبور کیے گئے جیسا کہ داعش زمین حاصل کرنا چاہتی تھی۔ علاقے میں داعش کے خلاف دو ہفتوں سے جاری آپریشن میں شریک ایک سپاہی کا کہنا تھا کہ 'داعش نے انھیں کہا تھا کہ اگر کوئی جائے گا تو وہ بھول جائے کہ کبھی اپنے علاقے میں واپس لوٹ پائے گا'۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جان نکلسن نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ کسی شہری کو نقصان نہ پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'علاقے میں ہمارے پاس امریکی فورسز موجود ہیں اور ہمیں کسی شہری کی ہلاکت کے ثبوت نہیں ملے ہیں اور نہ ہی ایسا کچھ رپورٹ ہی ہوا ہے'۔ امریکی فورسز اب بھی لڑائی میں مصروف ہیں جیسا کہ دن بھر بم دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ مقامی افراد جو اس مقام کے قریب موجود ہیں میڈیا سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں اور اس بات پر زور دے دہے ہیں کہ انھوں نے کچھ نہیں سنا اور نہ ہی کچھ دیکھا۔ تاہم مقامی اور غیر ملکی میڈیا سے تعلق رکھنے والے افغان صحافی اب بھی علاقے میں جانے کیلئے منتظر ہیں کیونکہ امریکی ہیلی کاپٹر اب بھی اس علاقے پر پرواز کر رہے ہیں اور بم حملے میں ہلاکتوں کی درست تعداد کے بارے میں اب بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

(نوٹ: یہ رپورٹ ننگرہار کے ضلع اچن میں موجود علی محمد لطیفی نے تحریر کی)

Post a Comment

0 Comments