Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا افغان فوج طالبان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

ایک مال بردار جہاز کا کھلا دروازہ اور اس سے باہر کا معائنہ کرتے ہوئے امریکی
وزیر دفاع جیمز میٹس۔ یہ تصویر یقیناً گلیمرس تھی مگر یہ جس دن لی گئی وہ دن کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تصویر سوموار کو لی گئی اور اس جہاز کی منزل کابل تھی۔ اُس دن صبح ملک کے وزیر دفاع عبداللہ حبیبی اور فوج کے سربراہ قدم شاہ شاہیم نے مزار شریف سے ملحق فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے کے تناظر میں اپنے استعفے جمع کروائے۔ یہ افغانستان میں جاری لڑائی کی سولہ سال کی تاریخ میں کسی بھی فوجی تنصیب پر مہلک ترین حملہ تھا۔

طالبان کے جنگجو ٹرکوں میں آئے جن پر ہو بہو افغان فوج کے ٹرکوں کی طرح پینٹ کیا گیا تھا۔ حملہ آور مکمل یونیفارم میں تھے اور ان کے پاس کاغذات بھی تھے جو بالکل مستند لگ رہے تھے۔ آنے والی ٹیم میں سے ایک کا حلیہ ایسا تھا جس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ زخمی ہے اس شخص کے سر پر پٹی بھی لگی تھی جس پر خون کے نشان تھے اور بازو میں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ مگر اس بھرپور ڈھونگ کے باوجود اتنی سخت قتل و غارت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ طالبان کے 10 حملہ آوروں نے 170 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ جہاں اس حملے سے فوج کے حوصلے پست ہوئے وہیں پورے ملک کو شدید دھچکہ لگا۔
افغانستان کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں دس طالبان جنگجو ہلاک ہوئے، حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اس حملے کے نتیجے میں دو اعلیٰ اہلکار مستعفی ہوئے اور فوج کے اعلی حلقوں میں تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چار کور کمانڈرز معطل کیے گئے جن میں میجر کٹاوزائی شامل ہیں جو چھاؤنی کے انچارج تھے۔ اس کے علاوہ آٹھ فوجی اہلکار زیرتفتیش ہیں۔ شک کیا جا رہا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کو فوجی چھاؤنی کے اندر سے مدد حاصل تھی۔ اس واقعہ نے افغان فوج کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ طالبان کا ملک کے ایک تہائی حصے پر کنٹرول ہے اور عموماً ماہ سرما کے اختتام پر تشدد میں شدت آ جاتی ہے۔

گو کہ باقاعدہ طور پر بہار کے موسم میں حملوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا مگر پچھلے ماہ طالبان نے ہلمند صوبے کے ایک اہم مقام سنگن ضلع پر ایک بار پھر قبضہ کر لیا تھا۔ منظر عام پر افغانستان میں امریکی مشن کا ذکر نام نہاد دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ امریکہ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ افغان حکومت کو اصل خطرہ طالبان سے ہے اور اسی لیے ملک میں امریکی مشن کا ایک اہم مقصد طالبان کا مقابلہ کرنا ہے۔

طالبان کو پچھلے ڈھائی سال میں نیٹو کے مشن کے خاتمے کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں کے تناظر میں افغان اور امریکی اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو تربیت اور امدادی مشن کو بڑھانا ہو گا۔ تجاویز دی جا رہی ہیں کہ مزید چند ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ سوال یقیناً وزیر دفاع میٹس کے ایجنڈے پر ہو گا جب وہ افغان صدر اور دیگر اعلی اہلکاروں سے ٹرمپ انتظامیہ کے افغانستان سے متعلق بدلتے لائحہ عمل پر بات چیت کرنے آئے۔ مگر دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بدتر ہوتے حالات میں تبدیلی لانے کے لیے کافی نہیں۔ صرف پچھلے سال 6800 افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد پچھلے 16 سال سے جاری لڑائی میں امریکی فوج کو ہونے والے جانی نقصان سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی ہزار افغان فوجی یا تو اس قابل ہی نہیں رہے کے کام جاری رکھ سکیں یا پھر فوج چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

اور ایک بار پھر افغان فوج کو جن مشکلات کا سامنا ہے اُن کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ایک طرف تربیت کی کمی ہے تو دوسری جانب نئے بھرتی ہونے والوں میں جذبے کی کمی۔ پھر انتہائی خراب حالات میں کام کرنے کے علاوہ مناسب فضائی مدد نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ افسران میں کرپشن مسائل کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
آج افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کے دفتر سے نئے وزیر دفاع طارق شاہ بحرانی کی تقرری کا اعلان کیا گیا۔ اب ان کی تقرری کو پارلیمان کی منظوری حاصل ہو گی یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ قومی مفاہمت کے لیے قائم کی جانے والی حکومت بالک غیرموثر ثابت ہوئی ہے۔ قیام کے تقریباً تین سالوں میں یہ حکومت منقسم رہی ہے اور آپس میں کھلے عام اختلافات کا شکار رہی ہے۔
فوج افراتفری کا شکار ہے اور ایسے حالات میں طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مفاہمت کی ضرورت ہو گی۔ موجودہ حکومت یہ حاصل کر سکے گی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو 

Post a Comment

0 Comments