Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہمارا نظام بینکاری بھی گیم چینجر ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

پچھلی کئی دہائیوں سے مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے پاکستان میں قومی بچتوں کی شرحیں انتہائی پست رہی ہیں جبکہ گزشتہ 13 برسوں میں یہ شرح مزید گری ہے۔ مالی سال 2002-3ء میں بچتوں کی شرح 20.8 فیصد تھی جو 2015-16ء میں گر کر 14.3 فیصد رہ گئی۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ چین میں قومی بچتوں کا تناسب 46 فیصد، تھائی لینڈ میں 33 فیصد، بھارت میں 31 فیصد اور بنگلہ دیش میں 28 فیصد ہے۔ فوجی حکومت کے دور میں 2002ء اور 2004ء میں حکومتی شعبے کے دو بڑے بینکوں کو نجکاری کے نام پر غیر ملکیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بینکوں نے اجارہ داری قائم کر کے نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر لئے گئے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کرنے کے بجائے ان کو دی جانے والی شرح منافع میں کٹوتی کر کے اپنا منافع بڑھانا شروع کر دیا۔ چند حقائق پیش ہیں:۔

(1) 1999ء میں بینکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع 7؍ارب روپے تھا جبکہ بینکوں نے بچت کھاتے داروں کو اوسطاً 7 فیصد سالانہ منافع دیا تھا۔

(2) 2009ء میں 81؍ ارب روپے کا منافع ہوا مگر شرح منافع 5.1 فیصد رہی۔

(3) 2013ء میں منافع 162؍ارب روپے مگر شرح منافع 6.5 فیصد رہی۔

(4) 2016ء میں منافع 314؍ ارب روپے مگر شرح منافع 3.75 فیصد رہی۔
فرینڈز آف پاکستان کے 26؍ستمبر 2008ء کے اعلامیہ کے تحت آئی ایم ایف نے تباہ کن شرائط پر نومبر 2008ء میں پاکستان کے لئے 7.6؍ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا۔ اس کے فوراً بعد بینکوں نے گٹھ جوڑ کرکے صنعت، تجارت، زراعت اور برآمدات وغیرہ کے لئے بڑے پیمانے پر قرضے فراہم کرنے کے اپنے اصل کام کو جاری رکھنے کے بجائے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو بڑے پیمانے پر قرضے دینا شروع کر دئیے۔ اس فیصلے سے بھی معیشت کی شرح نمو متاثر ہوئی، روزگار کے کم مواقع میسر آئے، قومی بچتوں کی شرح گری اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ آگے چل کر اس بات کے شواہد اور زیادہ واضح ہو گئے کہ اس تباہ کن پالیسی کو آئی ایم ایف کی آشیر باد حاصل تھی جس سے بینکوں کا منافع تو یقیناً بڑھا مگر معیشت کو نقصان پہنچا۔ بینکوں کے مجموعی قرضوں اور مجموعی سرمایہ کاری کا تقابلی جائزہ نذر قارئین ہے:

(ارب روپے)
2008ء
2016ء
اضافہ
مجموعی سرمایہ کاری
1087
7509
6422
مجموعی قرضے
3173
5499
2326

مندرجہ بالا اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 8؍ برسوں میں بینکوں کے مجموعی قرضوں میں صرف 2326؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ سرمایہ کاری میں اضافے کا حجم 6422؍ ارب روپے رہا۔ واضح رہے کہ اسی مدت میں بینکوں کے ڈپازٹس میں 8186؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ حکومت کو دئیے گئے قرضوں پر مشتمل تھا جو ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہونے دینے سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے دئیے گئے تھے۔ اس قسم کے تباہ کن فیصلے کی پاکستان تو کیا دنیا بھر میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں جو پریشان کن پیش رفت شعبہ بینکاری میں ہوئی ہیں ان میں سے دو یہ ہیں:

(1) مارچ 2017ء میں شائع ہونے والے سندھ بینک کے سالانہ گوشواروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کی ملکیت اور زیرانتظام سندھ بینک حیران کن طور پر زبردست مشکلات اور نقصان کا شکار نجی شعبے کے ’’سمٹ بینک‘‘ کو خرید کر اپنے اندر ضم کرنے کے لئے پرتول رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس سے صوبہ سندھ اور اس کے عوام کا نقصان ہو گا اور اس کا فائدہ سمٹ بینک کے مالکان کو ہو گا جن کے دور میں سمٹ بینک کو زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سمٹ بینک پہلے پاکستان میں بنگلہ دیش کا روپالی بینک تھا۔ یہ بینک بعد میں عارف حبیب بینک بنا اور پھر پیپلز پارٹی کے دور میں اکتوبر 2010ء میں اس وقت کی وفاقی حکومت کی آشیر باد اور اسٹیٹ بینک کی منظوری سے اس بینک کے اکثریتی حصص ماریشس کی ایک پارٹی کے حوالے کر دئیے گئے اور اس طرح سمٹ بینک معرض وجود میں آیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد پاکستان میں بینک گاجر مولی کی طرح فروخت ہو رہے تھے چنانچہ مائی بینک اور اٹلس بینک بھی سمٹ بینک میں ضم ہو گئے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ سندھ بھر میں سمٹ بینک کی شاخوں کی تعداد سے کہیں زیادہ اس بینک کی شاخیں ملک کے دوسرے صوبوں میں ہیں اور اس کی شاخوں، قرضوں اور پھنسے ہوئے قرضوں کا حجم سندھ بینک سے کہیں زیادہ ہے۔ سندھ بینک کو حکومتی شعبے میں قائم کرنے کا بنیادی مقصد صوبہ سندھ کی معیشت کی ترقی اور صوبے کے عوام کو بینکاری کی خدمات فراہم کر کے ان کی حالت بہتر بنانا ہے چنانچہ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ سندھ کے مالی وسائل سمٹ بینک کے ’’نجاتی پیکیج‘‘ پر صرف کئے جائیں۔

(2) یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ چند روز قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حکومتی شعبے کے فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری کی سفارش اس بنیاد پر کی ہے اس کی کارکردگی ناقص ہے۔ فرسٹ ویمن بینک دنیا کا واحد ویمن بینک ہے اور اس کی شاخوں کی تعداد صرف 42 ہے۔ قائمہ کمیٹی کی یہ سفارش بنیادی حقائق کا ادراک کئے بغیر کی گئی ہے۔ فرسٹ ویمن بینک حکومتی شعبے میں رہتے ہوئے ملک کی لاکھوں خواتین کا ملک کی معاشی ترقی میں کردار بڑھانے اور ان کو ہنرمند بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ فرسٹ ویمن بینک کی خراب کارکردگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے وفاقی حکومت نے وعدہ کرنے کے باوجود اس بینک کو 500 ملین روپے کا سرمایہ فراہم نہیں کیا حالانکہ اسٹیٹ بینک نے کسب بینک کو بینک اسلامی کے ہاتھ نہ صرف ایک ہزار روپے میں فروخت کیا بلکہ بینک اسلامی کو لمبی مدت کے لئے 20؍ ارب روپے کا سرمایہ بھی فراہم کیا۔ یہ فیصلہ متنازع اور غیر شفاف تھا۔ اگر کسب بینک ملک میں کام کرنے والے کسی بڑے بینک کو فروخت کیا جاتا تو بہتر قیمت ملتی اور اسٹیٹ بینک کو سرمایہ فراہم کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔

آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے اکتوبر 2016ء میں کہا تھا کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں خواتین کا کردار گیم چینجر ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے تیسرے بڑے بینک یونائیٹڈ بینک میں ایک خاتون کو صدر مقرر کیا جا سکتا ہے تو فرسٹ ویمن بینک میں بھی کسی لائق اور تجربہ کار خاتون بینکار کو صدر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ذمہ داری دی جائے کہ دسمبر 2018ء تک فرسٹ ویمن بینک کی ملک بھر میں 300 مزید شاخیں کھولی جائیں اور خواتین کو ہنرمند بنانے کے لئے ٹریننگ پروگرام شروع کئے جائیں۔ حکومت کو اس بینک کو مرحلہ وار چند ارب روپے کا سرمایہ بھی فراہم کرنا ہو گا اور خواتین کے لئے بڑے پیمانے پر ووکیشنل ٹریننگ کی رفتار تیز کرنا ہو گی۔ سندھ بینک کے لئے بھی موقع ہے کہ سمٹ بینک میں اپنا سرمایہ لگانے کے بجائے بے نظیر شہید کے وژن کی روشنی میں قائم کئے گئے فرسٹ ویمن بینک کی تیز رفتار ترقی کے لئے کردار ادا کرے۔
اگر مندرجہ بالا گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سی پیک منصوبے سے رونما ہونے والے سنہری مواقع سے استفادہ کرنے کے لئے شعبہ بینکاری میں بھی بنیادی نوعیت کی اصلاحات کی جائیں تو بینکاری کا شعبہ بھی جس کے مجموعی ڈپازٹس کا حجم 11؍ ہزار ارب روپے سے زائد ہے، یقیناً گیم چینجر ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی


Post a Comment

0 Comments